’’پنجاب کا وزیراعلیٰ کون‘‘۔ حقائق یہ ہیں

January 30, 2014

روزنامہ جنگ کی 25جنوری کی اشاعت میں حذیفہ رحمٰن کے نام سے پنجاب حکومت پر لیپ ٹاپ اسکیم کے حوالے سے تحریر شائع ہوئی ہے۔ کہتے ہیں کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہوتا ہے۔ یہ تحریر بھی اپنے محرر کی ایسی ہی کسی محبت کی عکاسی کرتی ہے جو اہل خبر کے لئے کالم کے عنوان کی طرح ’’کھلاراز‘‘ ہے۔ ہم اس تحریر کو محبت کی مزدوری قرار دے دیتے لیکن واقفان ِ حال اس کے ڈانڈے ’’شمال و جنوب‘‘ سے ملانے پر مصر ہیں۔
لیپ ٹاپ اسکیم میں میرٹ کی جو پابندی اور طے شدہ معیار کا جو احترام کیاگیا ہے اس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ یہی وجہ ہے کہ لیپ ٹاپ حاصل کرنے والوں میں ہر طرح کی سیاسی وابستگی رکھنے والے طلبہ شامل ہیں۔ ان میں جماعت اسلامی سے ہمدردی رکھنے والے طالب علم بھی موجود ہیں اور تحریک ِ انصاف کے ساتھ مل کر دھرنا دینے والے نوجوان بھی۔ لیپ ٹاپ حاصل کرنے کے لئے چار سالہ ڈگری پروگرام کےپہلے سال یا سمسٹر کے طالب علموں کے لئے یہ ضروری تھا کہ وہ آخری سالانہ امتحان میں 60فیصد یا سمسٹر سسٹم ہونے کی شکل میں آخری سمسٹر کے امتحان میں 70فیصد نمبر لے چکے ہوں۔ اسی طرح 2سالہ ماسٹر ڈگری پروگرام کے پہلے برس یا پہلے سمسٹر کے طلبہ کو لیپ ٹاپ کا حق دار قرار دیا گیاتھا جن کے لئے حاصل شدہ نمبروں کا یہی معیار مقرر تھا۔ مقررہ معیار کے مطابق پنجاب کے تمام انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری تعلیمی بورڈوں کےامتحانات میں پہلی 100 پوزیشنیں اور سرکاری شعبے میں وفاقی یونیورسٹیوں کی پہلی 20 پوزیشنوں پر آنے والے طلبہ کو لیپ ٹاپ کا حق دار قرار دیا گیا ہے۔
اس وقت اٹک سے لے کر صادق آباد تک دو لاکھ 1877 لیپ ٹاپ تقسیم کئے جاچکے ہیں لیکن یہ حکومت کی سوفیصد میرٹ پالیسی ہی ہے کہ آج حکومت کے بدترین مخالف بھی پورے پنجاب میں کوئی ایک طالب علم بھی ایسا پیش نہیں کرسکے جو مذکورہ معیار کےمطابق مطلوبہ نمبر نہ لینے کے باوجود لیپ ٹاپ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا ہو۔ لیپ ٹاپ کی تقسیم میں متعلقہ قوانین بنانے کے لئے ہر ضلع میں منتخب امیدواروں کے کوائف کی پڑتال کی غرض سے ایک کمیٹی بنائی گئی تھی جس کی نگرانی متعلقہ ضلع کے ڈی سی او، کسی ایک کالج یا یونیورسٹی کے پرنسپل یا رجسٹرار ، ڈائریکٹر کالجز کے سپرد تھی۔ علاوہ ازیں ہر تعلیمی ادارےمیں جہاں لیپ ٹاپ تقسیم ہونا تھے، فوکل کمیٹیاں تشکیل دی گئی تھیں جو لیپ ٹاپس کی حتمی تقسیم سے پہلے ہر وصول کنندہ کے استحقاق کی تصدیق کرتی تھی۔ ان کمیٹیوں کو کسی بھی ایسے طالب علم کا نام فہرست سے نکالنے کا اختیار حاصل تھا جو متعینہ معیار پر پورا نہ اترتا ہو۔ ایسا نہیں کہ پاکستانی معاشرہ فرشتوں کا معاشرہ بن چکا ہے یقیناً یہ وہی معاشرہ ہے جس میں کرپشن کے واقعات معمول کا حصہ ہیں۔ لیپ ٹاپ سکیم میں بھی غیرمستحق افراد کی طرف سے لیپ ٹاپ حاصل کرنے کی کوشش کے اِکا دُکاواقعات ضرور سامنے آئے لیکن حکومت ِ پنجاب نے اپنے وزیراعلیٰ کی ہدایات کے مطابق ان کوششوں کی نہ صرف سختی سے گرفت کی بلکہ متعلقہ افرادکا کڑا ترین احتساب بھی کیاگیا۔ پنجاب کے ایک سینئر پروفیسر کاوہ واقعہ اور اس پر حکومت پنجاب کی تادیبی کارروائی کی تفصیلات تو اخبارات کی زینت بھی بن چکی ہیں جس میں انہوں نےاپنے نورِ نظرکو لیپ ٹاپ دلانے کے لئے اس کے حاصل کردہ نمبروں میں میرٹ سے ایک انچ کی کمی دور کرنے کے لئے اس کے رزلٹ میں ہیرپھیر کرنے کی کوشش کی تھی۔ واضح رہے کہ اس معاملے میں بھی کسی کو میرٹ میں طے شدہ معیار سے چھیڑچھاڑ کرنے کی جرأت نہیں ہوئی تھی بلکہ اس کی بجائے طالب علم کے حاصل کردہ نمبروں کا تناسب بڑھانے کی کوشش کی گئی تھی جس کا تعلق لیپ ٹاپ سکیم میں میرٹ کےکڑے نظام کی بجائے امتحانی سسٹم سے تھا۔کالم نگار کی طرف سے لیپ ٹاپس کی تقسیم میں میرٹ کی پابندی کے حوالے سے ’’بوجوہ‘‘ پھیلائے جانے والے مغالطے کو دور کرنے کے لئے اس حقیقت کااظہار بھی ضروری ہے کہ پاکستان کے وزیراعظم محمد نواز شریف اور پنجاب کے وزیراعلیٰ شہبازشریف کو بھی یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ میرٹ پر نہ آنے والے کسی طالب علم کو یہ لیپ ٹاپ دینے کا حکم جاری کرسکیں۔ قارئین کے لئے یہ امر خوشگوارحیرت اور کالم نگار کے لئے صدمے کا باعث ہوگا کہ وزیراعلیٰ اور وزیراعظم نے مختلف تقاریب کے دوران تلاوت اور نعت خوانی کا شاندارمظاہرہ کرنے والوں کے لئے جن لیپ ٹاپس کااعلان کیا تھا ان کی قیمت کی ادائیگی ان دونوں شخصیات نے اپنی جیب سے کی اور اس ضمن میں اس وقت تک کسی کو ایک لیپ ٹاپ بھی ایسا نہ دیاگیا جب تک اس کے لئے وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کے ذاتی دفاتر کی طرف سے چیک وصول نہ ہوگیا ہو۔میں ذاتی طور پر سمجھتاہوں کہ عوامی خزانے سے جاری ہونے والی اس سکیم میں میرٹ کی پابندی حکومت پنجاب کی قومی اور اخلاقی ذمہ داری تھی۔اگر وہ اس پر پورا نہ اترتی تو میرے نزیک حکومت مجرمانہ غفلت کی مرتکب ہوتی۔ لیکن یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم اپنے ذاتی مفادات اور اہداف کے لئے اور ایک قومی اہمیت کے منصوبے کے بارے میں عوام کو گمراہ کرنے کے لئے حقائق کا خون کرنے والے قلم کار کو مجرمانہ غلط بیانی کا مرتکب قرار دے سکتے ہیں؟ یہ وہ سوال ہے کہ جس کا جواب آج آزادی ٔ اظہار کے ہرعلمبردار کو تلاش کرنا چاہئے۔جہاں تک حکومت ِ پنجاب کا تعلق ہے میں متعلقہ اتھارٹی کی اجازت سے ادارہ جنگ کی انتظامیہ کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ لیپ ٹاپ سکیم کے بارے میں مذکورہ کالم میں لگائےگئے الزامات کی تحقیق کے لئے اپنے استصواب کے مطابق تعلیم سمیت معاشرے کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے سرکردہ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تجویز کرے۔ حکومت ِ پنجاب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنے کے لئے ہر طرح کے مطلوبہ ریکارڈ اور شواہد کے ذریعے اس کمیٹی کی اعانت کرنے کے لئے تیارہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس کمیٹی کی رپورٹ کے آئینے میں حکومت ِ پنجاب کی میرٹ پالیسی کے ساتھ ساتھ لیپ ٹاپ جیسی سکیم کے بارے میں بے جا الزام تراشی کرنے والوں کے خدوخال بھی عوام کے سامنے آجائیں گے۔آخر میں، میں اس دعا کے ساتھ قارئین سے اجازت چاہوں گا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں سچ بولنے، سچ سننے اور سچ کو پھیلانے کی توفیق عطا فرمائے۔ وما علینا الابلاغ۔