غیرت کے نام پر قتل

November 29, 2023

یہ ہماری بے حسی کی انتہا نہیں تو کیا ہے کہ اس جدید دور میں بھی ہمارا معاشرتی نظام اپنی پرانی گھسی پٹی فرسودہ روایات کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ غیرت کے نام پر قتل کرتے ہوئے ایک لمحہ کیلئے ہاتھ نہیں لرزتے۔ کاروکاری، ونی، کم عمری کی شادیاں اور خاندانی روایات سے بغاوت پر ماضی میں ہونے والے جرگوں اور پنچایتوں کے بھیانک اور ناروا فیصلے آج بھی ہو رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے ضلع کوہستان میں سوشل میڈیا پر مقامی لڑکوں کے ساتھ رقص کرتے ہوئے ویڈیو وائرل ہونے کے بعد مقامی جرگہ کے حکم پر ایک نوجوان لڑکی کو مبینہ طور پر قتل کردیا گیا ہے۔ پولیس رپورٹ کے مطابق ویڈیو ایڈٹ شدہ اور جعلی تھی۔ لڑکی کے قتل کا فیصلہ گھروالوں اور رشتہ داروں نے خود ہی کرلیا۔ ضلع کوہستان خیبر پختونخوا کا انتہائی دور افتادہ اور پسماندہ علاقہ ہے۔ 2012ءمیں بھی یہاں ہونیوالی ایک شادی کی تقریب کی ویڈیو منظر عام پر آئی تھی جس میں چار لڑکیوں کی تالیوں کی تھاپ پر دو لڑکے روایتی رقص کر رہے تھے۔ یہ ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد ان لڑکیوں کے قتل کی خبریں بھی سامنے آئی تھیں۔ ایسے واقعات عموماً دور دوراز اور پسماندہ علاقوں میں ہوتے ہیں سوال یہ ہے کہ ان کی روک تھام کب ہوگی؟ 2021ءکی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ پانچ ہزار افراد (مرد و زن) غیرت کے نام پر قتل ہوئے جن کے پس پردہ یہی محرکات تھے کہ مقتول کی حرکت خاندان کی بے عزتی یا شرمندگی کا باعث بنی۔ ہمارے ملک کا المیہ یہ بھی ہے کہ یہاں قانون موجود ہونے کے باوجود اس پر صحیح معنوں میں عملدرآمد نہیں ہوتا۔ عدالتوں میں کئی کئی سال مقدمات چلتے ہیں جس کے باعث یہ قبیح رسمیں معاشرے میں جڑیں مضبوط کرچکی ہیں جن کا قلع قمع کرنے کے لئے ہمیں اپنی سوچ اور رویے بدلنے کی اشد ضرورت ہےاور یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ جرگے پنچایت وغیرہ غیر قانونی ہیں اور انکے فیصلوں کی کوئی اہمیت نہیں۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998