• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی احتساب بیورو (نیب) ایک عرصہ سے شدید تنقید کی زد میں ہے۔ سیاسی حلقوں میں اسے سرے سے ختم کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں کیونکہ جو کام اس کے ذمے لگایا گیا ہے اسے انجام دینے کیلئے پہلے ہی کچھ دوسرے ادارے موجود ہیں۔ اسے ایک ڈکٹیٹر کے حکم پر قائم کیا گیا تھا جو جائز یا ناجائز ہر طریقے سے اس کے ذریعے اپنے سیاسی مخالفین کو شکنجے میں لانا چاہتا تھا۔ نیب بظاہر نہ صرف اس کی خواہشات پر پورا اترتا دکھائی دیا بلکہ آنے والی سیاسی حکومتوں کے کام بھی آتا رہا۔ اس نے جہاں نظام میں پائی جانے والی بدعنوانی، بے ضابطگی، کرپشن اور قومی وسائل کی لوٹ مار پر سے پردہ اٹھایا اور اس کے ذمہ دار افراد کو قانون کٹہرے میں کھڑا کیا وہاں برسر اقتدار حکومتوں کے مخالفین پر ایسے مقدمات بھی بنائے جو عدل و انصاف کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتے تھے۔ اس کی وجہ سے اس کی ساکھ متاثر ہوئی۔ بہت سے بیوروکریٹس پر بھی مقدمات قائم کئے گئے جس سے بیوروکریسی میں بددلی پیدا ہوئی۔ ایسے کئی کیسز درست بھی ثابت ہوئے مگر اکثر بے بنیاد نکلے۔ ایسے کچھ کیسوں کی نشاندہی پنجاب کے سینئر بیوروکریٹس نے گزشتہ روز نیب کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل (ر) نذیر احمد بٹ کے ساتھ ڈھائی گھنٹے کی ایک طویل نشست میں کی اور اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ مثلاً ایک سیکرٹری کے خلاف انکوائریز کی گئیں۔ سب میں ریلیف ملا مگر کیس ختم نہیں ہوا۔ ایک اور سیکرٹری نے بتایا کہ کابینہ کی منظوری سے پیسے ملتے ہیں اور پروجیکٹس پر خرچ ہوتے ہیں تو انکوائری لگا دی جاتی ہے۔ اگر ہم حکومت کے دئیے گئے پیسے خرچ نہ کریں اور وہ لیپس ہو جائیں تو حکومت ہم سے بازپرس کرتی ہے اور خرچ کریں تو نیب انکوائری لگا دیتا ہے۔ احد چیمہ جیسے افسروں جن کے ہر کیس میں کچھ ثابت نہیں ہوا لیکن ہتھکڑیاں لگا کر ان کا میڈیا ٹرائل کیا گیا اور معاشرے اور خاندان میں رسوا کیا گیا۔ 56کمپنیوں کے کیسز کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ پراجیکٹس کی منظوری کابینہ نے دی جبکہ سپریم کورٹ نے نوٹس لیا۔ نیب نے کیس بنایا اور افسروں سے ان کی تنخواہیں واپس لی گئیں جبکہ کچھ کے پاس واپس دینے کیلئے پیسے بھی نہیں تھے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ ہر ادارے کے اندر انٹرنل احتساب کا میکنزم موجود ہے نیب تحقیقات کرتا ہے تو متعلقہ محکمے کا نمائندہ بھی موجود ہونا چاہئے۔ چیئرمین نیب نے بیورو کریسی کو یقین دلایا کہ مستقبل میں کسی افسر کا میڈیا ٹرائل نہیں ہوگا۔ احد چیمہ آخری کیس میں بھی بری ہو گئے تو میں ان سے معافی مانگنے ان کے گھر جائوں گا۔ نیک نیتی اور مفاد عامہ کے کیسز میں افسروں سے پوچھ گچھ نہیں ہو گی اور بے نامی درخواستوں پر کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ تمام کیسز پہلے زیر بحث آئیں گے پھر آگے بڑھیں گے۔ ملاقات میں اس بات پر اتفاق ہوا کہ کوئی بھی انکوائری شروع کرنےسے پہلے کیسز پر بات کرنے کیلئے مشترکہ ٹیم کی ہر دو ماہ بعد ملاقات کا انتظام کیا جائے گا۔ دریں اثنا چیئرمین نیب نے ہائوسنگ سوسائٹیوں کے لئے بھی نئی پالیسی کا اعلان کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت ہر دس میں سے سات سوسائٹیاں فراڈ کر رہی ہیں۔ عوام کو ان سے بچانے کیلئے ان کے خلاف شکنجہ سخت کیا جائے گا اور بلڈرا ور خریدار کے درمیان ٹرانزیکشن میں ریگولیٹر کا اضافہ کیا جائے گا۔ تمام ٹرانزیکشنز بینکوں کے ذریعے ہوں گی اور بذریعہ کیش ادائیگی کی اجازت نہیں ہو گی۔ چیئرمین نیب نے بیوروکریسی کے تحفظات اور ہائوسنگ سوسائٹیوں کے متعلق عوام کی شکایت دور کرنے کیلئے جن اقدامات کا اعلان کیا ہے وہ انصاف کا تقاضا اور وقت کی ضرورت ہیں۔ احتساب کا ادارہ نظام میں پائی جانے والی خرابیاں دور کرنے کیلئے بہت ضروری ہے مگر اسے شفاف اور منصفانہ طریقے سے اپنے فرائض انجام دینے چاہئیں تاکہ کوئی اس کی جانبداری پر انگلی نہ اٹھا سکے۔

تازہ ترین