مذاکرات ،آپریشن مگر انجام کیا

February 15, 2014

ہتھیاروں کے بل پر حکم روانہ کرنیوالے طالبان سے مذاکرات شروع ہوچکے۔دونوںطرف کی کمیٹیاں مصروف گفتگوہیں اورقوم امن کیلئے پُرامید ۔ مذاکرات یا آپریشن ،اس موضوع پربہت لکھا جاچکا۔ مذاکرات کے حامی مذاکرات کو حل قرار دیتے ہیں اور آپریشن کے حامی آپریشن کو۔ میرے خیال میں دونوں کی کامیابی کے امکانات کچھ زیادہ نہیں ۔ دونوںاقدامات ہی بے دلی سے ہونگے،بے دلی سے تو پڑھی نماز کی قبولیت بھی مشکوک سمجھی جاتی ہے ۔ عمران سمیت مذاکرات کے حامیوں کی دلیل ہے ہر جنگ کا انجام مذاکرات کی میز پرہوتا ہے۔ایسا نہیں وہ تاریخ کا ادھورا حوالہ دیتے ہیں۔ان جنگوں کا اختتام مذاکرات پر ہوتا ہے جن کا انجام فتح پر منتج نہ ہو۔فاتح اور مفتوح مذاکرات نہیں کرتے۔سکندرنے بھی فاتح کے غرورسے پابند سلاسل دارا سے سوال کیاتھابتائوتمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔دارا کا جواب تھا جو فاتح مفتوح سے کرتا ہے۔الیگزینڈرنے کہا جائو تمھیں معاف کیا۔یہ فاتح کی ادا تھی مذاکراتی لین دین نہیں۔فاتح اور مفتوح کے درمیان مذاکرات ہوئے ہوں کوئی ایک ثبوت بھی تاریخ سے نہیں ملتا۔زمانہ قدیم میں عرب قبائل کے درمیان چالیس سالہ جنگ کا اختتام مذاکرات بتایا جاتا ہے مگر یہ نہیں بتایا جاتا ان قبائل میں کوئی بھی دوسرے کو فتح نہیں کرسکا تھا۔ قذافی یاصدام سے مذاکرات نہیں ہوئے تھے، بشارالاسد سے ہوتے رہتے ہیں ،کیونکہ شام کی جنگ میں ابھی تک کوئی فاتح نہیں ۔دوسرے مذاکرات دشمن سے ہوتے ہیں ریاست کے باغیوں سے نہیں۔باغیوں سے صرف ہتھیار ڈالنے کیلئے بات چیت ہوتی ہے۔سوال پیدا ہوتا ہے طالبان کیا ہیں باغی یا دوسری ریاست کے حملہ آور دشمن ،جنگی فریق۔انہیں سری لنکا کے تامل باغیوں سے بھی مشابہت نہیں دی جا سکتی ۔تامل الگ ملک چاہتے تھے ۔فاٹا پہلے ہی کافی آزاد ہے پاکستانی آئین وقوانین کاعملاوہاںکوئی نفاذ نہیں ۔جہاں پاکستانی فوج،پولیس نہیں جا سکتی وہاں پاکستانی قوانین کا نفاذ کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔طالبان ایک الگ شکل و صورت کے حامل ہیں تاریخ میں ان کی مشابہت نہیں ملتی ۔وہ پاکستان کے شہری ہیں مگر پاکستانی آئین کو نہیںمانتے ،نہ جمہوری طرز حکمرانی کو ۔مذاکرات میں آئین کے دائرہ کار کوتسلیم کر لیا گیا ہے مگر ماضی میں انحراف کرتے رہے جو ریکارڈ پر ہے ۔عام تاثر ہے وہ پاکستان پر قبضہ کرکے اپنی پسند کی شریعت نافذکرنا چاہتے ہیں جس کاگاہے گاہے وہ اظہار بھی کرتے رہتے ہیں ۔ کمیٹی کے ایک رکن مولوی عبدالعزیز نے شریعت کے نفاذ سے عدم توجہی پر مذاکرات سے علیحدگی کی دھمکی دی ہے ۔ پاکستان کے اندر سے بھی انہیں مالی امداد سمیت ہر طرح کی تائید حاصل ہے ۔وہ خود کو ریاست سے طاقتور گردانتے ہیں،پاکستان کے معصوم شہریوں کو دہشت گرد حملوں کا نشانہ بناتے ہیںجس کی وہ ذمہ داری بھی لیتے ہیں۔وہ ریاست سے بر سر پیکار ہیں ۔بغاوت کا مقصد ریاست پر خاص برانڈ کے اسلام کا نفاذ ہے جو قبل ازیں افغانستان اور پاکستانی علاقے سوات میں نافذ کر چکے ہیں۔یہ نظرئیے کی جنگ ہے جس سے عسکریت پسندوں کوعلیحدہ کرنا آسان نہیں ،پھر یہ جنگ افغانستان سے جُڑی ہوئی ہے اور افغانستان کی جنگ کے بادلوں کی ابھی کوئی سمت واضح نہیں ۔پاکستانی فوج اور سول حکومت کے مقاصد میں اشتراک عمل بھی وضاحت طلب حقیقت ہے۔پاکستانی فوج انہیں اپنا قیمتی اثاثہ قرار دیتی رہی ہے مگر اب اس اثاثے میں نقب زنی ہو چکی ہے ،پاکستان کے دشمنوں کے ان سے مضبوط رابطے ہیں ،پھر یہ کسی ایک قیادت کے زیر کمان نہیں اور نہ ہی مقاصد مشترک ہیں۔مذاکراتی کمیٹیوں کا ایجنڈا ابھی تک واضح نہیں ۔مگر میرا کتھارسس ہے ایجنڈا واضح ہو گا بھی نہیں۔ دونوںفریق میڈیا وار کر رہے ہیں اور میڈیا پر اپنے اپنے موقف کودرست ثابت کرنے کیلئے مذاکرات کا سہار الئے ہوئے ہیں ۔اندرونی مقاصد مذاکراتی مقاصد سے مختلف ہیں ۔کچھ لوگ اس کی وجہ عدم اعتماد کہتے ہیںمگر میں اسے مقاصد کے ٹکرائوسے تعبیر کرتا ہوں اور مذاکرات کی کامیابی کو دبیز تہوں کے تلے دیکھتا ہوں۔ طالبان کمیٹی کے15 مطالبات کی لسٹ مقاصد کی دو انتہائوں کی غماز اور مذاکرات کے انجام کی نشان راہ ہے ۔کچھ لوگ حکومت پر الزام دھرتے ہیں وہ امریکہ کے دبائو میں مذاکرات سے پہلو تہی کررہی ہے، کچھ فوج کوموردالزام ٹھہراتے ہیں ۔اصل میدان افغان جنگ ہے جس کے کئی فریق ہیں اور کوئی بھی نچلا نہیں بیٹھا ،سب اپنا اپنا کام دکھا رہے ہیں ۔ہم پاکستانی توفرنٹ پر ہیں اور دہشت گردی کا اوّلین اور آسان ہدف ۔ ہم تو امن بھی چاہتے اور مذاکرات بھی مگر اوروں کو کیا پڑی ہے سب اپنی اپنی نبیڑ رہے ہیں ۔سرتاج عزیزکا بیان امریکی انخلاء کے بعد طالبان کی حکومت نہیں بنے گی ،طالبان کا اثر و رسوخ چند صوبوں تک ہے جبکہ جنرل حمید گل کہتے ہیں طالبان افغانستان کے 70%علاقے پر قابض ہیں ۔ سول اور فوجی موقف میں اتنا خلاء عجب مخمصہ ہے ۔
اب آتے ہیں آپریشن کی طرف۔فیصلے کی ایک گھڑی ہوتی ہے اگر دو سال پہلے کیاہوتا اور فیصلہ کن طاقت سے کیا ہوتا توشاید فیصلہ درست ہوتا ۔ القائدہ کے غیر ملکی مکینوں کو نکال باہرکیا جاتا ۔ بُرے طالبان سے فاٹا کو پاک کر کے اپنی رٹ قائم کی ہوتی تو آج معاملات ہمارے ہاتھ میں ہوتے ۔اب نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن والا معاملہ ہے۔امریکی ناراض ہیں پاکستان نے فاٹا میں آپریشن ہماری مرضی کے مطابق نہیں کیا ۔طالبان ناراض ہیں پاکستان نے اپنے شہریوں کا ڈرون حملوں سے تحفظ نہیں کیا، کبھی کسی نے پاکستانیوں سے نہیں پوچھا وہ کہاں تک ذمہ دار ہیں ۔امریکہ نے بھارت کو افغانستان میں اہم رول سے نواز کر ڈبل کراس کیا ،پاکستان نے بھی اپنے مفاد کے مطابق کیا مگر پاکستان کو ڈبل کراس کا مجرم بنا دیا ۔کسی نے امریکہ سے نہیں پوچھا کیا بھارت کا افغانستان میں کردار فرنٹ لائن ریاست پاکستان کے مفاد میں ہے ۔یقیناً ایسا نہیں تو پھر معذرت کے ساتھ ڈبل کراس کس نے کیا امریکہ یا پاکستان۔ میں نے بین السطور لکھا ہے فاٹا کے باسی پاک فوج کا اثاثہ ہیں جسے ہم نے بھارت کے خلاف جنگوں کیلئے ہمیشہ سنبھال کر رکھا ۔2014گزررہا ہے نیٹو افواج کا انخلاء متوقع ہے ،خلاء پیدا ہونیوالا ہے ۔ افغانستان میں خانہ جنگی نوشتہ دیوار ہے ۔طالبان پہاڑوں سے نکل کر کابل کارُخ کریں گے ۔بھارت کی کمانڈ میں افغان افواج انہیں روکیں گی ۔پاکستان کا فطری اشتراک طالبان سے ہوگا ۔پاکستان کی موجودہ سول حکومت کا ایجنڈا ممکن ہے امریکی خواہشات کا ترجمان ہو اور بھارت سے تعاون کا طلبگار ہو مگر افواج پاکستان جو اصل پلیئر ہیں کیلئے اتنا بڑا یو ٹرن آسان نہ ہوگا ۔مانا طالبان سے رشتوں کی مضبوطی 2001سے قبل والی ممکن نہیں ،اعتماد کی کمی اور مقاصد کا اختلاف ہے ،مگر افغانستان میں بھارت کی حکومت کا مطلب پاکستان کو بھارتی جبڑوں کیلئے سینڈوچ بنانا ہے۔ ِطالبان کے علاوہ پاکستان کے پاس کوئی آپشن نہیں۔موجودہ سیاسی منظر نامے میں فوج کا اپنے ہدف پر توجہ اور سول حکومت کا بھارت کی طرف جھکائو ،ڈپلومیسی کا بہترین امتزاج ہوسکتا ہے بشرطیکہ اشتراک عمل اور رضامندی سے ہو ۔ مگر یہ سارے اشارے کنائے بھارتیوں سے بھی مخفی نہیں ۔افغان نیابتی جنگ کے پاکستان ، بھارت کے علاوہ ایران روس اورچین بھی بڑےکھلاڑی ہیں ،امریکہ کی موجودگی سے کسی کو انکار ہو نہیں سکتا ،ایسے وقت میں کیا اپنے اثاثے کے خلاف آپریشن کرنا درست فیصلہ ہو گا ۔میرے خیا ل میں وقت کا انتخاب مناسب نہیں ۔اگر آپریشن ناکام ہوا تو پھر دہشت گردی کی لہر سونامی کی طرح پاکستان پر حملہ آور ہوگی جو ہماری افغانستان میں پراکسی وار کوبھی متاثر کریگی۔معاملہ بہت گمبھیر ہے اور انتہائی سنجیدگی کا متقاضی ہے۔ان بھول بھلیوں کے بھنورمیں چاہے کچھ حاصل ہو نہ ہو میسّر حالات میں مذاکرات کا راستہ وقت کا تقاضا ہے۔نیٹو افواج کی اگر واپسی ہوتی ہے تو پھر اس اثاثے کا استعمال ناگزیر ہوگا۔جس اثاثے کو سنبھالنے کیلئے 50ہزار پاکستانیوں کو قربان ہونے دیا اب اس کے استعمال کا وقت ہے ،آپریشن کرکے ضائع کرنے کا وقت نہیں۔