قائد کامقروض۔ ڈاکٹر صفدر محمود

March 01, 2014

عمر میں دوچار برس کا کچھ خاص فرق نہیں ہوتا اور لوگ بالعموم ہم عصر ہی کہلاتے ہیں۔مگر بعض اپنے اوپر بزرگی کچھ اس طرح سے اوڑھ لیتے ہیں کہ لگتا ہے کہ پیدائشی بزرگ ہیں۔کچھ یہی حال محبی ومحترمی ڈاکٹر صفدرمحمودکابھی ہے۔گو ہماری اور ان کی عمر میں بس اتنا ہی فرق ہے جتنا کہ ہم پہلی سطر میں لکھ چکے اور یہ بھی خوبصورت اتفاق کہ گورنمنٹ کالج میں ان کی شاگردی سے بال بال بچے،کیونکہ وہ کالج صدر دروازے سے نکل رہے تھے اور ہم دھوبی گھاٹ والے عقبی دروازے سے داخل۔ ان کی لکھی ہوئی کتابیں ہماری نسل کے لوگ بچپن سے پڑھتے آئے ہیں۔ آپ تاریخ کے طالب علم ہوں یا سیاست کے یاپھر سی ایس ایس پر منہ مارنے کا ارادہ ہے، ڈاکٹر صاحب کی تصانیف سے بچ نکلنا محال ہوا کرتا تھا، اور شاید آج بھی ہو تجربے کی بات ہے، آپ کے مشاہدے میں بھی آئی ہوگی کہ زندگی کی دوڑ میں بعض لوگوں کی رفتار کچھ زیادہ ہی تیز ہوتی ہے وہ سب کچھ جلدی جلدی کرلیتے ہیں اور پھر پریشان ہوتے ہیں کہ اب کیا کیا جائے؟ جو عمر ہماشا کی بی اے میں فیل ہونے کی ہوتی ہے ڈاکٹر صاحب اس سن میں گورنمنٹ کالج جیسی عظیم درس گاہ میں سولہویں جماعت کوسیاسیات پڑھا رہے تھے اور پھر یکایک سول سروس میں چلے گئے۔ ایک ایسے محکمے میں جس کے کلرک بھی بادشاہ ہوتے ہیں۔ مگر سلام ہے اس شخص کوکہ ایک انتہائی زرخیز محکمے میں انتہائی مدارج طے کرنے کے باوجود فقیر کے فقیر رہے۔ ہم عصر مال وزر سے تجوریاں بھرتے رہے اور موصوف علم کی دریوزہ گری میں ہمہ تن مصروف۔ جس زمانہ میں بیچ میٹ فیلڈ میں محکمہ کی اسسٹنٹ کمشنری انجوائے کررہے تھے موصوف وفاقی وزارت اطلاعات کے ذیلی دفتر ریسرچ اینڈ ریفرنس میں بوسیدہ اور گل گھوٹو قسم کی دستاویزات کے درمیان بسیرا کئے ہوئے تھے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے صفدر محمود سے ڈاکٹر صفدر محمود ہوگئے ۔ جامعہ پنجاب نے مسلم لیگ پر ان کی تحقیق کے حوالے سے پی ایچ ڈی کی ڈگری عطا کی تھی۔ اعزازی نہیں،پکی قسم کی، جو انہوں نے محنت سے کمائی تھی اور وہ بھی کم سنی میں کیونکہ اس وقت بھی آپ تیس سے اوپر نہیں تھے۔
موصوف کوتنہائی کی شکایت ہے جس کا اکثر ذکر کرتے رہے ہیں۔مگر تنہا تو ہم سبھی ہیں ۔ ہر وقت کھی کھی کرنے والے بھی اندر سے کھوکھلے بھی ہوتے ہیں اور دکھی بھی، مگر چہروں پر مسکان ،تاکہ بھرم بنارہے۔ مگر صاحبو ! تنہائی کو اگنور بھی نہیں کیا جاسکتا اور اس کے ماروں کی مظلومیت بھی بے کراں، کیونکہ تنہائی سے بڑھ کر اذیت کوئی نہیں۔ اور جرم کی دنیا میں بھی اس سے سنگین سزا ہنوز دریافت نہیں ہوئی۔ پتھروں کوبھی دنوں میں ریزہ ریزہ کردیتی ہے مگر ڈاکٹر صاحب کی تنہائی میں کچھ قصور ان کا اپنا بھی ہے۔آپ نے دیکھا ہوگا کہ لوگ بچوں کو بڑوں میں بیٹھنے نہیں دیتے۔تاکہ انکی معصومیت اور بچپنا برقرار رہے اور کسی مجبوری کے تحت جن بچوں کی پرورش بڑوں کے درمیان ہوتی ہے وہ چھوٹی عمر میں ہی کچھ زیادہ ہی پکے پیڈھے سے ہوجاتے ہیں۔ کسی نے کہا تھا اپنے سے دگنی عمر کے لوگوں کے ساتھ یارانہ گانٹھنے کو ؟ حفیظ جالندھری، شورش کاشمیری، مرزا منور ، ضمیر جعفری اور کرنل محمد خان جیسے بزرگ کب تک ساتھ نبھاتے؟ آخر ایک دن توجانا ہی تھا ، سوچلے گئے ۔ایک ٹریجڈی اور بھی ہوئی کہ ہم عصروں کی اکثریت راتوں رات دوستی کے درجہ سے گر کر شاگردی کی کیٹیگری میں آگئی تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ اپنے مضمون میں یونیورسٹی میں ٹاپ کیا تو اس زمانے کی روایت کے مطابق گورنمنٹ کالج میں لیکچرر ہوگئے ۔ ایم اے فائنل کی کلاس بھی لیتے تھے، یوں ان سے محض ایک برس جونیئر ان کے شاگرد ٹھہرے۔ جن میں دنیائے سیاست کے بعض بڑے نام بھی ہیں۔ مگر ان کے ایک شاگرد نے تو قرون اولیٰ کی یاد تازہ کردی۔ مدتوں بعد ڈاکٹر صاحب کے اعزاز میں گھر میں مختصر سی علمی نشست کا اہتمام کیا اور جب استاد محترم جانے کیلئے اٹھے تو پھرتی کے ساتھ جوتیاں سیدھی کرکے ان کے سامنے رکھ دیں۔ موصوف کا وہ نیک شاگرد کوئی اور نہیں لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس خواجہ محمد شریف تھے۔ علمی شخصیات کا ایک مسئلہ اور بھی ہوتا ہے کہ ہر کس وناکس کے ساتھ کھل بھی نہیں سکتے ۔ بات سننے اور سمجھنے والا بھی تو کوئی ہو اور ہماری کم نصیبی یہ کہ گلا پھاڑ کر کہنے والے تو بہت ہیں مگر سننے اور سمجھنے والے بتدریج ناپید ہوتے جارہے ہیں۔ موصوف کو امجد اسلام امجد اور انکے پانچ پیارے بڑھے نصیب والے لگتے ہیں کہ گاہے گا ہے مل بیٹھتے ہیں اور قہقہوں کا سیلاب بہا دیتے ہیں مگر کبھی ان سے پوچھئے کہ یہ بلند آہنگ قہقہے کس کس کرب کو بہلانے کیلئے ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کی ایک بات سے مجھے پورا اتفاق ہے کہ بچپن اور جوانی کے مخلص دوستوں کا جواب نہیں، اور ان کا ملنا ناپید۔ مگر وہاں بھی بعض دشواریاں مزہ کرکرا کردیتی ہیں۔ بچپن کے ہمجولیوں میں اگر عملی زندگی میں بھی کچھ قدریں مشترک ہوں تو بات آگے چلتی ہے ورنہ10/5منٹ بعد ہی موضوع ختم ہوجاتے ہیں گوناگوں سماجی اور معاشی مسائل میں الجھے بچپن کے دوست بھی بعض اوقات آپ کو ہلکا کرنے کی بجائے بھاری کرجاتے ہیں۔ یہاں مجھے امریکی صدر نکسن کی خودنوشت کا ایک واقعہ یادا ٓرہا ہے کانگریس میں نورس کاٹن صدر نکسن کے بچپن کے دوست تھے۔ ہر ویک اینڈ پر وائٹ ہائوس میں دونوں کی خصوصی محفل جمتی۔ کھانے پینے ، گپ شپ اور ہنسی مذاق کی یہ نشست گھنٹوں چلتی اور سرکاری کام معطل ہوکر رہ جاتا تھا۔ انتہائی ضرورت کے علاوہ جناب صدر کو ڈسڑب نہیں کیا جاتا تھا اور وائٹ ہائوس کے عملہ نے اسے ’’ کاٹن ڈے‘‘ کانام دے رکھا تھا دونوں تقریباً ہم عمر تھے مگر نورس کاٹن پر بڑھاپا کچھ جلدی آگیا قویٰ مضمحل ہوئے تو وائٹ ہائوس جانا چھوڑ دیا نکسن بھلا ٹکنے والے کہاں تھے،خود موصوف کے گھر جانا شروع کردیا اور ایوان صدر والی محفلیں وہاں جمنے لگیں۔ ایک شب نکسن جانے کیلئے اٹھے تو کاٹن بولے، اگر برا نہ منائؤ تو ایک بات کہوں ؟ پلیز میرے گھر نہ آیا کیجئے ۔ نکسن بھونچکا رہ گیا ، آخر کیوں؟ وہ اس لئے کہ میرے گھٹنوں میں اتنا دم بھی نہیں کہ میں جانب صدر کو گیٹ پر ریسیو کرسکوں اور الوداع کہہ سکوں۔ فولادی حواس والا نکسن گویا پگھل کر رہ گیا آبدیدہ ہوکر بولا مجھے پروٹوکول کی ضرورت تو نہیں تھی مگر جیسے تمہاری سہولت مگر آج میرا بچپنا مرگیا میرا چلبلا ماضی قبر میں چلا گیا ۔
کچھ عرصے سے زندگی کی بے ثباتی کاذکر ڈاکٹر صاحب کی گفتگو اور تحریر میں بڑھ گیا ہے۔ زندگی کی شام کا ذکر تواتر سے کرتے ہیں وہ تو اللہ کو پتہ ہے کہ کس کی شام کب ہوجانی ہے ،تو ایسے میں کیوں نہ امریکیوں کی کہاوت پر غور کیاجائے کہlife starts at 70 یعنی زندگی کاتو آغاز ہی ستر برس کی عمر سے ہوتا ہے اور ڈاکٹر صاحب یقیناً ابھی ستر کے نہیں ہوئے۔ ویسے بھی ابھی قوم کو انکی بہت ضرورت ہے۔ قائداعظم اورپاکستان پر برسنے والے تیروتفنگ کے سامنے سینہ سپر ہوکر انہوں نے ایک شناخت پائی ہے۔ جب بھی کوئی ایسا موقع آتا ہے قوم کی نگاہیں انہی کی طرف اٹھتی ہیں یہ کچھ کم اعزاز کی بات نہیں۔ یار لوگ قائدؒ اور پاکستان پر درجنوں کتابوں کی تصنیف کے دعویدارتوہیں،مگر زبانیں گنگ اور قلم جامد۔ اللہ رب العزت آپ کو صحت کے ساتھ زندگی دے بابائے قوم پر کتاب لکھیں کہ ہنوز کسی پاکستانی کو ان کی مستند سوانح لکھنے کی توفیق نہیں ہوئی،کالم فیکس کیلئے رکھا تھا کہ ایک دوست تشریف لے آئے بولے، آج تو پرچہ آؤٹ ہوگیا چھپنے سے پہلے پڑھنے کامزا ہی اور ہے، جب پڑھ چکے تو بولے باقی تو سب ٹھیک ہے مگر عنوان کے حوالے سے مجھے اعتراض ہے ۔ کیا پاکستان بھر میں صرف صفدر محمود ہی قائداعظم کا مقروض ہے؟ عرض کی مقروض توہم سبھی ہیں مگر بعض قرض ڈکار جاتے ہیں اوربعض لین دین کےکھرے ہوتے ہیں ظاہر ہے توقع کھرے لوگوں سے ہی کی جاسکتی ہے ہمارے ایک اور دوست کاخیال ہے کہ موصوف اصل میں ایک استاد تھے، جو افسری میں رل گئے شاید یہ درست بھی ہو،کیونکہ اکثر وبیشتر حکمراں انکی شناخت کے حوالے سے مغالطے کاشکار ہیں۔ ہر کوئی انہیں کسی اور کابندہ سمجھتا رہا۔ جبکہ موصوف صرف اور صرف اللہ کے بندے تھے اور ہیں۔سسٹم کی نالائقی دیکھیے کہ نوکری کے آخری چار برس جبکہ وہ علم ودانش اور تجربے کی معراج پر تھے،انکے پاس کرنے کوکوئی کام نہ تھا اورتحریک کارکنان پاکستان کی عمارت کے ایک کونے میں بیٹھے گڑ کی چائے پیتے اور پلاتے رہے ۔ ایک ذاتی نوٹ پر ختم کررہا ہوں کہ موصوف ان لوگوں میں سے ہیں، جو نیکی کرکے اس پھرتی سے دریا میں ڈال دیتے ہیں، کہ موقع کاگواہ بھی نہیں ملتا اور اگر کوئی شکریہ ادا کرنے کی غلطی کر بیٹھے توبرامان جاتے ہیں
نایاب ہوتے جارہے ہیں ان کی قدر کرو
اک عہد کا انعام ہوتے ہیں یہ لوگ