عید پر ون ویلنگ حادثے

July 09, 2016

عید، یوم آزادی اور اس نوع کے دوسرے مذہبی تہوار کسی بھی قوم کی تہذیبی اقدار و اخلاقی اطوار کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ ماہرین سماجیات کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ کسی ملک میں سڑکوں پر ٹریفک کی منظم روانی یا اس کے بے ہنگم پن کو دیکھ کر اس کے باشندوں کی ذہنی حالت اور رویوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ان اقوال کی روشنی میں دیکھا جائے تو افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کسی بھی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے حوالے سے ہمارے قومی رویے کے بارے میں کوئی مثبت رائے دینا بہت مشکل ہے مسرت و انبساط کے موقع پر جشن منانا ہر فرد کا بنیادی حق اور اس کی شخصی آزادی کا ایک ناگزیر تقاضا ہے لیکن اس آزادی کی بھی حدود و قیود ہیں اور اگر یہ آزادی دوسروں کی نقل و حرکت یا ان کی جان و مال تک کے لئے خطرہ بن جائے تو اس کی کوئی بھی معاشرہ اجازت نہیںدے سکتا، ہمارے ہاں معمول کے حالات میں بھی ٹریفک قوانین کی شدید خلاف ورزی بلکہ ان کی پامالی ایک عوامی رویہ بن کر رہ گیا ہے لیکن کسی بھی تہوار کے موقع پر خاص طور پر موٹر سائیکلسٹ ون ویلنگ کے ذریعے جس طرح دوسروں کے ساتھ ساتھ اپنی جان کو بھی جن سنگین خطرات سے دوچار کردیتے ہیں کہ اس کے تدارک کیلئے سخت ترین اقدامات کرنے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں کیونکہ یہ معاملہ اب حد سے زیادہ تجاوز کر گیا ہے اور بعض لوگ تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ تمام بڑے شہروں کی اہم شاہراہیں موٹرے وے پولیس کے کنٹرول میں دے دی جائیں، لاہور ، راولپنڈی، اسلام آباد، فیصل آباد، سیالکوٹ، گوجرانوالہ اور قصور میں 13 ون ویلروں کی ہلاکت اور 700 افراد کا زخمی ہونا ایک بہت بڑا المیہ ہے جس کے سدباب کے لئے ارباب اختیار سماجی ماہرین اور علماء کرام سب کو پوری سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے اور سوچنا چاہئے کہ آزادی کے بعد قریباً سات دہائیاں گزر جانے کے باوجود قومی سطح پر ہمارے ہاں ذمہ داری کیوں نہیں آسکی۔ یہ ایک بہت اہم سوال ہے جو ایک مدت سے تشنہ جواب چلا آرہا ہے۔