سیاسی استحکام سے ہی گورننس کے چیلنجوں سے نمٹا جا سکتا ہے، پالیسی انسٹیٹیوٹ

May 09, 2024

اسلام آباد(صالح ظافر)پالیسی انسٹی ٹیوٹ نے سیاسی استحکام کی بحالی کےلیےفوج کی اونرشپ میں مصالحتی عمل شروع کرنے اور جامع قومی مصالحت کی ضرورت پرزور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام کی قلت ہی سب سے بڑا ایشو ہے، سیاسی استحکام سے ہی گورننس کے چیلنجوں سے نمٹاجاسکتا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ نے پاکستان پر واجب الادا قرض کی جامع ری اسٹرکچرنگ کو ملک کی تنزل پذیر معیشت بچانے کےلیے لازمی اقدام قراردینے کی حمایت کی ہے۔ قومی معاملات کے حوالے سے ایک معتبر تھنک ٹینک کے طور پر انسٹیٹیوٹ نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں متعدد سفارشات کی گئی ہیں اور اس کا نام ’’ پالیسی ایجنڈا 2023-2024کی نقشہ کشی ‘‘ ہے۔ رپورٹ میں پاکستان کو درپیش اہم چیلنجوں کا جائزہ لیا گیا ہے اور ان سے نمٹنے کےلیے جامع حکمت عملی تجویز کی گئی ہے۔ اس میں مذاکرات اور جمہوری اداروں کی مضبوطی کے ذریعے سیاسی مصالحت کی تجویز دی گئی ہے جبکہ ساتھ ہی ساتھ فوج کے کردار کا نئے سرے سے تعین کرنے اور زرتلافی، مالیاتی مینجمنٹ، ٹیکسیشن اور قرض کی ری اسٹرکچرنگ ، عسکریب پسندی کے لینڈ اسکیپ کی نئے سرے سے نقشہ بند ی کرکے سیکورٹی خطرات سے نمٹنے ،انتہاپسندی سے نمٹنے، بلوچستان کے معاملے کو سیاسی طور پر حل کرنے اور اقتصادی سفارتکاری کےلیےدفتر خارجہ کو طاقتور بنانے پر زور دیا گیا ہے۔ ملک میں سیاسی استحکام کی کمی سب سے بڑا ایشوہے اور صرف سیاسی استحکام کی بحالی سے ہی حکومت کو گورننس کے چیلنجوں سے نمٹنے کیلیے دم بھرنے کی جگہ مل سکتی ہے۔ اس حوالے سے ایک جامع مذاکرات اور مصالحتی عمل شروع کرنے کی سفارش کی گئی ہے ۔ آئی پی آئی کے ریسرچ کے سربراہ فیصل احمد نے کہا ہے کہ اس عمل میں تمام متعلقہ فریقین کے خدشات کو تسلیم کرکے انہیں حل کرنا شامل ہونا چاہیے ۔ رپورٹ مین یہ بھی کہا گیا کہ اس مصالحتی عمل کی ملکیت فوج کے سپرد ہونی چاہیے اور وہ اس کی پشت پناہی کرے۔ ان کے خیال میں اس سے مصالحتی عمل کو قانونی حیثیت ملے گی اور اسے وسیع تر قبولیت حاصل ہوسکے گی۔ اس سے استتحکام آسکے گا جو اقتصادی اصلاحات اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی ترغیب کےلیے ضروری ہے۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ قرض کی ری اسٹرکچرنگ کیلئے جرات درکار ہے اور اس حوالے سے ہہت سے خوف بے بنیاد ہیں۔ سیکورٹی مبصر سفیر عبدالباسط کا کہنا تھا کہ افغانستان پر طالبان کی حکومتت کی روشنی میں نئے سرے سے عسکری منظر نامے کی نقشہ کشی کی جائے ، نوجوانوں میں انتہاپسندی کو نشانہ بنایاجائے، انتہاپسند گروپوں میں جنس کے کردار کو ہدف بنایا ور سوشل میڈیا اور ڈس انفارمیشن کے اثرات پرقابوپایاجائے۔ بلوچستان میں لاپتہ افراد کے معاملے کو سیاسی کوششوں کے ذریعے حل کیاجائے اور عشکری گروپوں کے مابین ابھرتے ہوئے اتحادوں ان کی کمین گاہوں کو فعال طریقے سے تباہ کیاجائے۔ دفتر خارجہ کو معاشی کردارکےلیے طاقتوربنانے کی تجویز بھی دی گئی۔ توانائی کے ماہر ذیشان طیب نے سفارش کی کہ پٹرولیم سیکٹر میں اہم سفارشات کی جائیں جن میں ڈی ریگولیشن اور متعلقہ پالیسیوں کی جامع اورہالنگ کی جائے۔ انہوں نے اسٹیٹ بینک، ایف بی آر، وزارت توانائی ، اوراوگرا میں حایل بیوروکریٹک رکاوٹوں سے نمٹنے پر زور دیا۔