وفاقی اخراجات میں کمی!

May 22, 2024

قومی معیشت کی بحالی کیلئے کی جانے والی کوششوں کے کسی حد تک مثبت نتائج برآمد ہونے کا سلسلہ شروع ہوجانے کے باوجود سرکاری اخراجات میں آخری ممکنہ حد تک کمی ناگزیر ہے کیونکہ ماضی کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں ملک بھاری قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے جن کا حجم ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھتا چلاجارہا ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ سے طویل مدتی قرض کیلئے جو بات چیت جاری ہے ، اس میں کامیابی کی ایک ضروری شرط سرکاری اخراجات میں کمی کے اقدامات بھی ہیں چنانچہ وفاقی حکومت کی جانب سے عالمی مالیاتی فنڈ کو گزشتہ روز اخراجات میں کمی لانے کا ایک منصوبہ پیش کر دیا گیا ہے جس کے تحت ایک سال میں تین سوارب روپے سے زائد کے اخراجات کم کیے جائیں گے ۔منصوبے کے اہم نکات میں گریڈ ایک سے سولہ کی تمام خالی پوسٹوں کا خاتمہ، صوبوں کو ترقیاتی کاموں کیلئے مرکز کی جانب سے فنڈز کی عدم فراہمی،وفاقی وزارتوں کیلئے نئی گاڑیوں کی خریداری پر پابندی اور نئی یونیورسٹیاں قائم نہ کرنے کا فیصلہ شامل ہے۔ وفاقی حکومت صرف قومی نوعیت کے اہم ترقیاتی منصوبوں کیلئے وسائل مہیا کرے گی جبکہ انفرا اسٹرکچر کے پراجیکٹ سرکاری و نجی شعبے کی شراکت کے تحت مکمل کیے جائیں گے۔ صوبائی حکومتیں اپنے تحت آنے والی جامعات کیلئے مالیات کا انتظام خود کریں گی۔ علاوہ ازیں آئندہ مالی سال سے دفاع اور پولیس کے سوا تمام نئی بھرتیوں کیلئے رضاکارانہ پنشن ا سکیم پر بھی غور کیا جا رہا ہے نیز اخراجات میں کمی کی خاطر آئندہ مالی سال سے اراکین اسمبلی کی ترقیاتی اسکیموں پر مکمل پابندی کا بھی امکان ہے۔ تاہم اخراجات میں کمی کا یہ منصوبہ جس پر عمل درآمد کی صورت میں تین کھرب روپے کی بچت کی توقع ظاہر کی گئی ہے، اس کی بعض شقوں کا نتیجہ بظاہر عوامی بہبود کے ترقیاتی کاموں پر منفی اثرات کی شکل میں رونما ہوگا۔ ترقیاتی اسکیموں کیلئے ارکان اسمبلی کو وسائل فراہم نہ کرنا اور بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کے مطابق نئی یونیورسٹیاں قائم نہ کرنا عوامی نقطہ نظر سے مفید نہیں ہوگا۔ عام انتخابات کی مہم کے دوران حکمراں اتحاد میں شامل رہنما کہتے رہے ہیں کہ اقتدار میں آنے پر اشرافیہ کی 1500 ارب روپے کی مراعات ختم کرکے معیشت بحال کریں گے۔ بلاشبہ حکمرانوں، اعلیٰ سول ، ملٹری اور عدالتی افسروں کو نہات بھاری بھرکم تنخواہوں کے علاوہ اربوں روپے کی مراعات مفت رہائش، پٹرول، بجلی، گیس، فون اور ملازمین کی فوج کی شکل میں حاصل ہیں،ریٹائر ہونے کے بعد بھی شاہانہ زندگی بسر کرنے کی تمام سہولتیں انہیں عوام کے ٹیکسوں سے فراہم کی جاتی ہیں جبکہ ایک عام مزدور بجلی ، گیس کے روز بڑھتے بلوں، بچوں کی تعلیمی فیسوں اور تمام ضروریات زندگی کی روز افزوں مہنگائی کا عذاب جھیلنے پر مجبور ہے۔قومی وسائل کے ضائع ہونے کا ایک بنیادی سبب پوری سرکاری مشینری میں سرایت کرجانے والا کرپشن کا ناسور بھی ہے۔اس کے یقینی شواہد بیرون ملک پاکستانیوں کے کھربوں کے اثاثوں کی تفصیلات طشت از بام ہوجانے کے نتیجے میں بارہا سامنے آچکے ہیں۔ حال ہی میں امارات میں ہزاروں پاکستانیوں کی اربوں ڈالر کی جائیدادوں کا انکشاف اس ضمن میں تازہ ترین واقعہ ہے۔مسلم لیگ (ن) کی پچھلی حکومت میں اس وقت کے وزیر خزانہ کے یہ بیانات ریکارڈ پرہیں کہ دو سو ارب ڈالر مالیت کی لوٹی گئی قومی دولت سوئس بینکوں میں موجود ہے جس کی واپسی کے لیے بات چیت میں پیش رفت ہورہی ہے۔یہ دولت واپس آئے یا نہ آئے یہ بات تو بہرحال یقینی ہے کہ ہمارے قومی وسائل کابہت بڑا حصہ کرپشن کی نذر ہوجاتا ہے جس کا کوئی حل تلاش نہیں کیا جاسکاہے۔ لہٰذا ہر ممکن کوشش کی جانی چاہیے کہ عوامی فلاح کے ترقیاتی کاموں میں کٹوتی کے بجائے اشرافیہ کی مراعات ختم اور کرپشن کے راستے بند کرکے معیشت کی بحالی کے عمل کو نتیجہ خیز بنایا جائے۔