کھاد کارخانے: گیس سبسڈی ختم

May 26, 2024

کھاد کی قیمتوں میں اضافے کو روکنے میں حکومتی دعوے تاحال بے سود ثابت ہوئے ہیں اور کسانوں کو کھاد کی کمیابی اور مہنگے داموں فراہمی کی شکایات بدستور موجود ہیں۔ کھاد کی طلب و رسد میں فرق، بلیک میں فروخت، ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ جیسے عوامل اس کی قیمتوں میں اضافے کا باعث ہیں تو مہنگی گیس سے پیداواری لاگت کے ساتھ کارخانہ دار اور ڈیلر اپنے منافع کی شرح بھی بڑھا دیتے ہیں۔ طلب پوری نہ ہونے سے کثیر مقدار میں کھاد درآمد کرنی پڑ رہی ہے اور کارخانوں کو گیس پر سبسڈی دی جارہی ہے۔ اب وفاقی کابینہ نے ایک بڑا فیصلہ کرتے ہوئے کھاد کے کارخانوں کے لئے سبسڈی مکمل طور پر ختم کرنے کی منظوری دی ہے۔ ان کارخانوں کو اس وقت 217روپے فی ایم ایم بی ٹی یو سبسڈی مل رہی ہے اور انہیں اس وقت 1597روپے فی ایم ایم بی ٹی یو پر گیس سپلائی کی جا رہی ہے۔ کابینہ کے فیصلے پر عملدرآمد کے بعد کارخانوں کو فراہم کی جانے والی قیمت 1814 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو ہوجائے گی حکومت کا موقف ہے کہ کھاد کے کارخانوں کو سبسڈی دینے سے کسانوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا اور وہ انہیں براہ راست سبسڈی دینے کا ارادہ رکھتی ہے یہ اچھی بات ہے لیکن یہ بھی پیش نظر رہے کہ کارخانوں کو دی جانے والی سبسڈی ختم کرنے سے کھاد کی پیداواری لاگت بڑھے گی جس سے بالآخر کسان ہی متاثر ہوگا۔ حکومت پر آئی ایم ایف کا دبائو بھی ہے اور اس نے گزشتہ سال بھی کھاد کے کارخانوں کو گیس سبسڈی دینے کی مخالفت کی تھی اور فرٹیلائزر مینوفیکچررز کے لئے گیس کی قیمتوں میں 278روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کے اضافے کا مطالبہ کیا تھا۔ آئی ایم ایف پروگراموں میں سبسڈی ایک بہت ہی پیچیدہ مسئلہ بن گیاہے۔ اس سے پہلے کہ درآمدی کھاد پر انحصار کرنا پڑے اس پر توجہ دینا ناگزیر ہوگیا ہے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998