مخصوص نشستوں کا کیس، الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت کو باہر کیا جو اہم سوال ہے: جسٹس اطہر

July 02, 2024

سپریم کورٹ یوٹیوب لائیو اسٹریمنگ اسکرین گریب

سپریم کورٹ آف پاکستان میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت شروع ہو گئی جس کی کارروائی لائیو نشر کی جا رہی ہے۔

دورانِ سماعت جسٹس اطہر من اللّٰہ نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت کو باہر کیا جو ایک اہم سوال ہے، کیا سپریم کورٹ کی ذمے داری نہیں کہ قانون کی خلاف ورزی کو دیکھے؟

اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعتیں تب مخصوص نشستوں کی اہل ہوں گی جب کم سے کم ایک سیٹ جیتی ہو گی، مخدوم علی خان نے بتایا کہ آئین کے مطابق سیٹیں سیاسی جماعتوں کو ملیں گی، آزاد امیدواروں کو نہیں۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 2002ء اور 2018ء میں مخصوص نشستوں سے متعلق بھی ریکارڈ آ گیا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فُل کورٹ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔

اٹارنی جنرل کے دلائل

اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آ گئے، جنہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میرے پاس ریکارڈ آگیا ہے، 2002ء اور 2018ء میں مخصوص نشستوں سے متعلق بھی ریکارڈ ہے، مخدوم علی خان نے بتایا کہ آئین کے مطابق سیٹیں سیاسی جماعتوں کو ملیں گی، آزاد امیدواروں کو نہیں، سیاسی جماعتیں تب مخصوص نشستوں کی اہل ہوں گی جب کم سے کم ایک سیٹ جیتی ہو گی، مخصوص نشستوں سے متعلق 2002ء میں آرٹیکل 51 کو بروئے کار لایا گیا، غیر مسلموں کی مخصوص نشستوں کی تعداد 10 ہے۔

اس موقع پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے 2018ء میں مخصوص نشستوں سے متعلق آئین پڑھا اور کہا کہ 272 مکمل سیٹیں تھیں، 3 پر انتخابات ملتوی ہوئے، 13 آزاد امیدوار منتخب ہوئے، 9 امیدوار سیاسی جماعتوں میں شامل ہوئے، مخصوص نشستوں کا فارمولا 256 نشستوں پر نافذ ہوا، 2018ء میں 60 خواتین، 10 غیر مسلم سیٹیں مخصوص تھیں۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے 2018ء میں صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں اور 2002ء میں مخصوص نشستوں سے متعلق بھی سپریم کورٹ کو آگاہ کیا اور کہا کہ انتخابات 2002ء میں بلوچستان میں 20 فیصد آزاد امیدوار منتخب ہوئے تھے، مخصوص نشستوں کے تعین میں آزاد امیدواروں کو شامل نہیں کیا گیا تھا، جو آزاد امیدوار سیاسی جماعت میں شامل ہو جائے وہ پارٹی کا رکن تصور ہوتا ہے، 2002ء میں قومی اسمبلی میں پہلی مرتبہ آرٹیکل 51 کے تحت مخصوص نشستوں کا تعین کیا گیا، اسمبلیوں میں آرٹیکل 51 کا مقصد خواتین، اقلیتیوں کی نمائندگی دینا ہے، آزاد امیدوار اگر سیاسی جماعت میں شامل ہو جائیں تو انہیں پارٹی کا حصہ تصور کیا جائے گا، سیاسی جماعت جتنی مخصوص نشستوں کے لیے نام دینا چاہیں دے سکتی ہیں، سوال ہے کہ کیا آرٹیکل 51 کے تحت سنی اتحاد کونسل میں آزاد امیدواروں کی شمولیت ہو سکتی ہے؟ کیا سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی اہل ہے یا نہیں؟

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ آرٹیکل 51 ایک سیاسی جماعت کا حق ہے، الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت کو باہر کیا جو ایک اہم سوال ہے، کیا سپریم کورٹ کی ذمے داری نہیں کہ قانون کی خلاف ورزی کو دیکھے؟ ووٹرز نے سیاسی جماعت کو ووٹ دیا تھا۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آزاد امیدواروں کی تعداد 2024ء میں بہت بڑی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ موجودہ صورتِ حال میں آزاد امیدواروں کی تعداد زیادہ ہے۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب دیا کہ آئین کے مطابق کسی صورت کوئی نشست خالی نہیں چھوڑی جا سکتی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ماضی میں کبھی آزاد اراکین کا معاملہ عدالت میں نہیں آیا، اس مرتبہ آزاد اراکین کی تعداد بہت زیادہ ہے اور کیس بھی آیا ہے۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ اسمبلی کی مدت ختم ہونے میں 120 دن رہ جائیں تو آئین کہتا ہے کہ انتخابات کرانے کی ضرورت نہیں، اسمبلی کی مدت ختم ہونے پر 4 ماہ میں الیکشن کمیشن کو تمام انتظامات پورے کرنے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 51 میں سیٹوں کا ذکر ہے، ممبر شپ کا نہیں۔

آزاد امیدوار اتنی زیادہ تعداد میں آئے کیسے؟ جسٹس منیب

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 224 رعایت ہے ورنہ اسمبلی کی کوئی سیٹ خالی نہیں چھوڑی جا سکتی، آپ نے خود کہا کہ اگر آزاد امیدوار زیادہ ہوں تو کچھ غیر معمولی صورتِ حال ہو گی، جمہوریت پارلیمانی پارٹیوں پر مشتمل ہوتی ہے، موجودہ صورتِ حال میں آزاد امیدواروں کی تعداد بہت زیادہ ہے، سوال ہے کہ آزاد امیدوار اتنی زیادہ تعداد میں آئے کیسے؟ کیا سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں الیکشن کمیشن نے اتنے زیادہ آزاد امیدوار بنائے؟ موجودہ تنازع الیکشن کمیشن کی غلطیوں کی وجہ سے آیا، سپریم کورٹ کی ڈیوٹی نہیں کہ غلطی کو ٹھیک کرے، کیا وہ قانونی آپشن نہیں اپنانا چاہیے جو اس غلطی کا ازالہ کرے؟

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا کسی فریق نے یہ کہا ہے کہ نشستیں خالی رہیں گی؟ ہر فریق کہتا ہے کہ نشستیں ہمیں دی جائیں، جو معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے ہے ہی نہیں اس پر کیوں ٹائم لگا رہے ہیں۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ فیصل صدیقی نے کہا تھا کہ اگر سنی اتحاد کونسل کو نشستیں نہیں ملتیں تو خالی چھوڑ دیں۔

’’آئین میں اس صورتِحال کا ذکر نہیں یا غلطی ہے تو آئین جانے اور اسے بنانے والے جانیں‘‘

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں بار بار آئین میں لکھے الفاظ کی بات کر رہا ہوں، اگر آئین میں اس صورتِ حال کا ذکر نہیں یا غلطی ہے تو آئین جانے اور اسے بنانے والے جانیں۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی جماعت نے انتخابات میں نشست جیتی ہو، پارلیمانی پارٹی ارکان کے حلف لینے کے بعد وجود میں آتی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ پارلیمانی پارٹی کی مثال غیر متعلقہ ہے، اس معاملے کا تعلق انتخابات سے پہلے کا ہے، پارلیمانی پارٹی کی تشکیل کا ذکر آئین میں کہاں ہے؟

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی کا ذکر صرف آرٹیکل 63 اے میں ہے، آرٹیکل 63 اے کے اطلاق کے لیے ضروری ہے کہ پارلیمانی پارٹی موجود ہو، اتنی بڑی آزاد امیدواروں کی تعداد کو کیسے دیکھا جائے اس کا جواب دوں گا۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس پر بات پر کیوں اتنا وقت لگایا جا رہا کہ سیٹیں خالی رکھی جائیں، کوئی نہیں چاہتا کہ سیٹیں خالی رکھی جائیں، جس کو جتنی سیٹیں ملیں انہیں اتنی مخصوص نشستیں مل جائیں، کس کو کتنی سیٹیں ملیں یہ جاننا ہمارا کام نہیں۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ آزاد امیدوار کسی پارٹی میں شامل ہو تو مخصوص پارلیمانی پارٹی کا حصہ بن جاتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پارلیمان کے اندر فیصلے سیاسی جماعت نہیں پارلیمانی پارٹی کرتی ہے۔

آزاد امیدوار کی شمولیت کیلئے ضروری ہے کہ سیاسی جماعت نے کم از کم ایک نشست جیتی ہو

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ آزاد امیدوار پارلیمانی پارٹی میں شمولیت اختیار نہیں کر سکتے، پارلیمانی پارٹی کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی جماعت نے کم از کم ایک نشست جیتی ہو۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت تسلیم کیا؟

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب دیا کہ سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت قرار دینا میرے علم میں نہیں۔

جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ کیا اس وقت سنی اتحاد پارلیمانی جماعت ہے یا نہیں؟ ایک جماعت کی پارلیمانی پارٹی حیثیت تسلیم کیے جانے سے کیسے فرق نہیں پڑے گا؟

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ اس بات کا فرق کیا پڑے گا کہ پارلیمانی جماعت ہے یا نہیں؟

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ آزاد امیدوار پارلیمانی پارٹی نہیں بنا سکتے، آزاد امیدوار نے اسی پارٹی میں شامل ہونا ہے اگر وہ پارٹی ایک سیٹ کم از کم جیت کر آئی ہو۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ یعنی سیاسی جماعت کے جیتے ہوئے امیدوار ہوں تو سیاسی پارٹی خود بخود پارلیمانی پارٹی بن جاتی ہے؟

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آزاد امیدوار پارٹی بنا لے تو آرٹیکل 51 نافذ نہیں ہو گا، آزاد امیدوار کی اسمبلی سے باہر پارٹی تصور کی جائے گی۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ آزاد امیدوار کسی ایسی سیاسی جماعت میں شامل نہیں ہو سکتا جو پارلیمانی پارٹی نہ ہو۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا ایسا نوٹیفکیشن ہے جس میں کسی پارٹی کو کہا گیا ہو کہ وہ پارلیمانی پارٹی ہے؟ ایسا کوئی نوٹیفکیشن ریکارڈ پر موجود ہے؟ ایسا نوٹیفکیشن کہاں ہے؟

جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ آج کا پارلیمانی پارٹی کا نوٹیفکیشن کہاں ہے؟ اس کا اسٹیٹس کیا ہے؟ کسی نے تو نوٹیفکیشن جاری نہیں کرنا، الیکشن کمیشن نے کرنا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر نوٹیفکیشن کیا بھی ہے تو اس کا کوئی اثر نہیں ہو گا۔

جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ اثر کیوں نہیں ہو گا؟ پارلیمانی پارٹی کی اسمبلی میں موجودگی ہوتی ہے، کیوں اثر نہیں پڑے گا؟

وکیل فیصل صدیقی نے زرتاج گل کی بطور پارلیمانی لیڈر تقرری کا نوٹیفکیشن سپریم کورٹ میں پیش کر دیا اور بتایا کہ نوٹیفکیشن قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے جاری کیا ہے، الیکشن کمیشن نے 25 اپریل کو آزاد امیدواروں کی شمولیت اور پارٹی پوزیشن کا نوٹیفکیشن جاری کیا، الیکشن کمیشن نے اپنے جواب میں بھی ارکان کا سنی اتحاد میں شامل ہونا تسلیم کیا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ان دستاویزات سے سوچ کا ایک نیا زاویہ سامنے آیا ہے، الیکشن کمیشن ارکان کو سنی اتحاد کا تسلیم کر رہا ہے، حلف کے بعد پارلیمان کے اندر کے معاملے کو اسپیکر قومی اسمبلی دیکھتے ہیں، کیا یہ تضاد نہیں کہ الیکشن کمیشن ایک جانب سنی اتحاد کو سیاسی جماعت ہی نہیں مان رہا تھا؟

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ اس نوٹیفکیشن کی حیثیت کیا ہے؟ ڈپٹی رجسٹرار کے خط کو سپریم کورٹ کا مؤقف کیسے مانا جا سکتا ہے؟

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ سرکاری طور پر ہونے والی کمیونیکیشن کو نظر انداز کیسے کیا جا سکتا ہے؟

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن نے نوٹیفکیشن کس قانون کے تحت جاری کیے ہیں؟

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے سے ان نوٹیفکیشنز کا تعلق نہیں۔

اٹارنی جنرل نے علامہ اقبال کا شعر پڑھا

اس موقع پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے علامہ اقبال کے مجموعے بانگِ درا کا شعر پڑھا کہ

مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں
میرا شوق دیکھ اور میرا انتظار دیکھ

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ آپ کی تشریح مان لیں تو پارلیمان میں اتنے لوگوں کا کیا کوئی پارلیمانی لیڈر نہیں ہو گا؟ مؤقف مان لیا تو آرٹیکل 63 اے کے تحت منحرف ہونے پر کارروائی ممکن نہیں ہو گی۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایک طرف ہمیں بتایا جاتا ہے کہ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے، اب الیکشن کمیشن کا ہی ریکارڈ ان لوگوں کو سنی اتحاد کونسل کا مان رہا ہے، بتائیں ناں کہ الیکشن کمیشن انہیں پارلیمانی جماعت مان کر کیسے نشستوں سے محروم کر رہا ہے، الیکشن کمیشن پارلیمنٹ کو بتا رہا ہے کہ ہمارے ریکارڈ میں یہ پارلیمانی جماعت ہے، ریکارڈ کسی وجہ سے ہی رکھا جاتا ہے ناں؟

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کس قانون کے تحت الیکشن کمیشن نے دونوں نوٹیفکیشن جاری کیے؟

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ عدالت کو بتائیں کہ الیکشن کمیشن کے نوٹیفکیشن کی لیگل حیثیت کیا ہے؟

اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن کے نوٹیفکیشن کی 63 اے کے مطابق حیثیت نہیں، آرٹیکل 63 اے کے مطابق سیاسی جماعت کو دیکھنا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ قومی اسمبلی کی طرف سے الیکشن کمیشن کو بتانا چاہیے کہ اسمبلی بن چکی ہے، یہاں الیکشن کمیشن قومی اسمبلی کو اپنے ریکارڈ کے مطابق بتا رہا ہے، الیکشن کمیشن کے پاس ریکارڈ رکھنا کسی وجہ سے ہوتا ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ ایسا ہوسکتا ہے کہ سیاسی جماعت پارلیمانی پارٹی نہ ہو، سیٹ جیتے تو پارلیمانی پارٹی تصور کی جا سکتی ہے؟

اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نے جواب دیا کہ انتخابات ہی تعین کریں گے کہ پارلیمانی پارٹی کون ہو گی، آزاد امیدوار اگر ہوں تو پارلیمانی پارٹی میں شامل ہو سکتے ہیں۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ میں آزاد امیدوار کے بارے میں نہیں پوچھ رہی، میں انتخابات میں حصہ لینے کے حق کے متعلق پوچھ رہی ہوں، آپ کے مطابق سیاسی جماعت ہی پارلیمانی پارٹی بنے گی، ابھی تو ہم دیکھ رہے ہیں کہ آزاد امیدوار سیاسی جماعت ہیں یا نہیں۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے سوال کیا کہ آپ کے مطابق آرٹیکل 51 کے تحت سنی اتحاد کونسل سیاسی جماعت نہیں؟ آپ کے مطابق سنی اتحاد کونسل ضمنی الیکشن جیتنے پر پارلیمانی پارٹی بن چکی ہے؟

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب دیا کہ اگر سنی اتحاد کونسل ضمنی انتخابات میں جیتتی ہے تو پارلیمانی پارٹی بن سکتی ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن سنی اتحاد کونسل کو سیاسی جماعت تصور نہیں کرتا تو پارلیمانی پارٹی کیسے بن سکتی ہے؟

جسٹس منیب اخترنے کہا کہ اگر آزاد امیدوار کسی سیاسی جماعت میں شامل ہوں تو پارلیمانی پارٹی بن جاتے ہیں۔

اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نے جواب دیا کہ مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو نہیں ملیں، سنی اتحاد کونسل کو آزاد امیدوار تصور کیا گیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ لوگوں کو علم تھا کہ آزاد قرار دیے گئے امیدوار پی ٹی آئی کے ہیں، مکمل انصاف کا اختیار اور کہاں استعمال کرنا ہے جب عدالت پوری تصویر ہی نہ دیکھ سکے، کیا عدالت آنکھیں بند کر لے؟

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ الیکشن کمیشن نے عدالتی فیصلے کی غلط تشریح کی، کیا آئینی ادارے کی جانب سے غیر آئینی تشریح کی عدالت توثیق کر دے؟ کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم نظریۂ ضرورت کو دوبارہ زندہ کر دیں؟

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ کوئی پٹواری کی زمین کے تنازع کا کیس نہیں جو صرف اپیل تک محدود رہیں۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ عدالتِ انصاف کے تقاضوں کا نہیں آئین اور قانون کا اطلاق کرتی ہے؟ نظریۂ ضرورت کے تمام فیصلوں میں انصاف کے تقاضوں کا ہی ذکر ہے، جب کچھ ٹھوس مواد نہ ملے تو انصاف کی اپنی مرضی کی تشریح کی جاتی ہے، کسی جج سے بد نیتی منسوب نہیں کر رہا۔

’’آئینی ادارے نے غیر آئینی تشریح کی اور سپریم کورٹ اس کی توثیق کرے؟‘‘

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سوال کیا کہ کیا عدالت آئین کی سنگین خلاف ورزی کی توثیق کر دے؟ کیا کمرے میں موجود ہاتھی کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟ ایک آئینی ادارے نے غیر آئینی تشریح کی اور سپریم کورٹ اس کی توثیق کرے؟

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے انصاف پر مبنی ہیں، ہر فیصلے نے آئین کو فالو کیا، کچھ ججز دانا ہوں گے، میں اتنا دانا نہیں، پاکستان کو ایک بار آئین کے راستے پر چلنے دیں۔

جسٹس عرفان سعادت نے سوال کیا کہ جو آزاد امیدوار کسی پارلیمانی پارٹی میں شامل نہ ہوں تو کیا ہو گا؟ قانون تو کہتا ہے کہ 3 روز میں سیاسی جماعت میں شامل ہوں، آزاد امیدوار کیسے رہیں گے؟

اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نے کہا کہ آزاد امیدوار اگر کسی جماعت میں شامل نہیں ہوتے تو آزاد ہی رہیں گے۔

اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل

اس کے ساتھ ہی اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان کے دلائل مکمل ہو گئے۔

سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ 15 منٹ میں جواب الجواب ختم کر دوں گا۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ کئی سیاسی جماعتوں کو بونس میں مخصوص نشستیں ملی ہیں، اتنی نشستیں جماعتوں نے لی نہیں جتنی نشستیں انہیں دے دی گئی ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ حصہ بقدرِ جثہ ہوتا ہے لیکن کیا جثے سے زیادہ حصہ مل سکتا ہے؟

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ سارا معاملہ شروع ہی الیکشن کمیشن کی تشریح سے ہوا ہے۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ آزاد امیدواروں کی پی ٹی آئی میں شمولیت کی درخواست مسترد ہوتی تو وہ عدالت آ سکتے تھے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس کی سماعت 9 جولائی تک ملتوی کر دی۔

گزشتہ سماعت میں الیکشن کمیشن سے فارمولا، دستاویزات طلب کیں

سپریم کورٹ آف پاکستان نے گزشتہ روز کیس کی سماعت کے دوران الیکشن کمیشن سے فارمولا اور دستاویزات طلب کی تھیں کہ 2018ء اور 2024ء میں مخصوص نشستیں کیسے الاٹ ہوئیں؟

پی ٹی آئی نے بھی کیس میں فریق بننے کی درخواست دائر کر رکھی ہے۔