یہودی اپنے کیلنڈر کے ہوتے ہوئے عاشورہ کا روزہ کس طرح رکھتے تھے؟

July 19, 2024

آپ کے مسائل اور ان کا حل

سوال: 1۔ہمارے نبی علیہ السلام نے کافی عرصہ مدینے میں گزارا تو پھر آخری عرصے میں ہی کیوں معلوم ہوا کہ یہود مدینہ دس محرم کا روزہ رکھتے ہیں ؟

2۔ دس محرم کا روزہ یہودیوں کے ہاں کہاں سے ثابت ہے، جب کہ وہ تو اسلامی کیلنڈر نہیں مانتے؟ یہودی تو10 ویں دن ساتویں مہینے کے اپنے کیلنڈر کے حساب سے ہر سال روزہ رکھتے ہیں، جس دن وہ روزہ رکھتے ہیں اس دن کو ان کے ہاں (Yom Kippur) کہا جاتا ہے۔

جواب:1۔ یہودیوں کے عاشوراء کے دن روزہ رکھنے کا علم رسول اللہ ﷺ کو حیاتِ مبارکہ کے آخری سال نہیں ہوا، بلکہ مدینہ منورہ ہجرت فرمانے کے بعد ہی ہوگیا تھا، تفصیل اس کی یہ ہے کہ رمضان المبارک کے روزے فرض ہونے (سنہ 2 ہجری) سے پہلے مکی دور میں بھی رسول اللہ ﷺ اہتمام سے عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے اور مدینہ منورہ آنے کے بعد آپ ﷺ نے مسلمانوں کو بھی بہت اہتمام سے اس کا حکم دیا، بہت سے فقہاء کے مطابق اس وقت عاشوراء کا روزہ فرض تھا، پھر جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کے روزے کی حیثیت استحباب کی رہ گئی۔

جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ عاشوراء کے دن قریش جاہلیت کے زمانے میں روزہ رکھتے تھے اور آپ ﷺ بھی عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے، پھر جب آپ ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے مسلمانوں کو بھی عاشوراء کا روزہ رکھنے کا حکم دیا، پھر جب رمضان کے روزے فرض کردیے گئے تو اب وہی فرض ہیں، اور عاشوراء کے روزے کی فرضیت چھوڑ دی گئی، اب جو چاہے رکھے اور جو چاہے چھوڑ دے۔ (حدیث صحیح، جامع ترمذی، ابواب الصوم، باب ماجاء فی الرخصۃ فی ترک صوم یوم عاشوراء، (1/158) ط: قدیمی)

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں عاشوراء کے دن روزہ رکھنے کا حکم دیتے اور اس کی ترغیب دیتے اور اس دن ہمیں نصیحت کرنے کا اہتمام فرماتے ، پھر جب رمضان کا روزہ فرض کردیا گیا تو آپ ﷺ نے ہمیں نہ تو عاشوراء کے روزے کا حکم دیا، نہ اس سے روکا اور نہ اس دن نصیحت کا اہتمام فرمایا۔ (مسلم، بحوالہ مشکوٰۃ)

آپ ﷺ اور صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے مدنی دور کے آغاز سے ہی عاشوراء کا روزہ رکھا، اور ابتدا میں آپ ﷺ ہر عمل میں اہلِ کتاب کی مخالفت نہیں کرتے تھے، بلکہ ابتدائے اسلام میں بہت سے اعمال میں تالیفِ قلوب کے لیے نرمی کی گئی، مسلمانوں کا قبلہ بیت المقدس مقرر کیا گیا وغیرہ۔ مدینہ منورہ آنے کے بعد آپ ﷺ اور صحابہ کرامؓ تو اسلام کے حکم کے مطابق عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے، جب آپ ﷺ نے یہود مدینہ کو عاشوراء کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا تو آپ ﷺ نے اس کے متعلق ان سے دریافت کیا، چناں چہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہود مدینہ عاشوراء کا روزہ رکھتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: یہ کیسا دن ہے جس کا تم روزہ رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا: یہ بڑا دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات دی، اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا، اس کے شکر میں موسیٰ علیہ السلام نے روزہ رکھا، ہم بھی اسی لیے روزہ رکھتے ہیں۔

آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہم موسیٰ علیہ السلام کے طریقے کی پیروی اور اتباع کے زیادہ حق دار اور ان سے قریب ہیں، چناں چہ آپ ﷺ نے خود بھی روزہ رکھا اور مسلمانوں کو بھی عاشوراء کے روزے کا حکم دیا۔ (بخاری ومسلم)

آپ ﷺ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی موافقت اور اتباع کا ذکر فرمایا کہ ہم یہ روزہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی موافقت میں رکھیں گے اور ہم انبیائے کرام علیہم السلام کے طریقے کی پیروی کے زیادہ حق دار ہیں۔ بعد میں جب یہودیوں کی مکاریوں اور ضد وعناد کے نتیجے میں آپ ﷺ نے یہود کی مخالفت کا حکم دیا تو اس وقت لوگوں نے آپ ﷺ سے عاشوراء کے روزے کے حوالے سے بھی دریافت کیا، چناں چہ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جس وقت رسول اللہ ﷺ نے دس محرم کے دِن روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی اِس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا تو صحابہ ؓنے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! یہ ایسا دن ہے کہ یہودونصاریٰ اِس کی بہت تعظیم کرتے ہیں (اَور روزہ رکھ کر ہم اِس دِن کی تعظیم کرنے میں یہودونصاریٰ کی موافقت کرنے لگتے ہیں جب کہ ہمارے اَوراُن کے دین میں بڑا فرق ہے )، آپﷺ نے فرمایا: آئندہ سال اِن شاء اللہ ہم نویں تاریخ کو (بھی) روزہ رکھیں گے۔ حضرت ابن ِعباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ آئندہ سال محرم سے پہلے ہی آپ ﷺ کاوصال ہوگیا۔

لہٰذا مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ نے جب اہلِ کتاب کی مخالفت کا حکم دیا تو اس وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عاشوراء کے روزے سے متعلق بھی سوال کیا، جس پر آپﷺ نے آئندہ سال ان کی مخالفت کے لیے ایک روزہ مزید ملانے کا قصد کیا، اور یہ آپﷺ کی وفات سے ایک سال قبل ہوا، ورنہ فی نفسہ یہود کا عاشوراء کے دن روزہ رکھنا آپﷺ کو مدینہ آنے کے بعد ہی معلوم ہوگیا تھا۔

2۔ یہودی اس زمانہ میں قمری اور شمسی دونوں حساب کیا کرتے تھے، اور وہ اپنے سال کے پہلے مہینے تشرین کی دسویں تاریخ کو روزہ رکھتے تھے جسے آج کل ’’یوم کپور‘‘ کہا جاتا ہے ۔ (تشرین یا تشری ان کے عبادت کے سال کا پہلا مہینہ ہے، جسے ’’رأس السنہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے، البتہ اب موجودہ کلینڈر میں اسے ساتواں مہینہ شمار کیا جاتا ہے، نیز اب بھی یہ عام معمولاتِ زندگی کے شمار کے مطابق تو اسے ساتویں مہینہ میں شمار کرتے ہیں ، لیکن اپنی مذہبی رسومات وغیرہ کے حساب سے اسے پہلا مہینہ ہی شمار کرتے ہیں ) جب آپ ﷺ مدینہ آئے تو یہود نے اسی ماہِ تشرین کے دسویں دن روزہ رکھا ہوا تھا اور یہ ان کا عاشورہ تھا، پھر آپ ﷺ نے آئندہ سال محرم کے دسویں تاریخ کو عاشوراء کے روزہ کا حکم دیا، اس واقعے کی اصل وضع اور حقیقت کے اعتبار سے، اور آپ نے ان یہود کی تغیر شدہ تبدیلی کا اعتبار نہیں کیا۔(معارف السنن، (5/440) مجلس الدعوۃ والتحقيق الاسلامی)

اس سلسلے میں ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’اور اگر یہودیوں کا اعتماد شمسی مہینوں پر ہو تو کوئی اشکال بھی باقی نہیں رہتا کہ جس دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی، وہ دس محرم یعنی عاشوراء کا دن ہی تھا، لیکن یہودیوں نے اس دن کو شمسی مہینوں کے اعتبار سے یاد رکھا، اور اس طرح سے نبی ﷺ کی ربیع الاول میں مدینہ منورہ آمد پر یہودیوں نے اپنے شمسی اعتبار سے اس دن کا روزہ رکھا ہوا تھا، چوں کہ شمسی مہینوں کے ایام قمری مہینوں کے اعتبار سے تبدیل ہوتے رہتے ہیں، اور اہلِ کتاب شمسی مہینوں کا اعتبار کرتے ہوئے روزہ رکھتے ہیں، جب کہ مسلمان روزہ، حج اور دیگر فرض یا نفل عبادات کے لیے قمری مہینوں کا اعتبار کرتے ہیں۔ ( …جاری ہے …)