رسول ِکریم ﷺ کے وسیلے سے دعا مانگنا

July 26, 2024

آپ کے مسائل اور اُن کا حل

سوال: نبی کریم ﷺ کا وسیلہ دعا میں دینا ازروئے شریعت کیسا عمل ہے؟اس کے بارے میں بعض لوگ یہ دلیل یہ دیتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ کے زمانے میں جب بارش کے لیے دعا کی گئی تو حضرت عمر ؓ نے یہ فرمایا کہ اے اللہ، اب تیرا نبی ہم میں نہیں تو ہم آپ کوحضرت عباس ؓکا وسیلہ دیتے ہیں، لیکن بعض حضرات کہتے ہیں کہ نبی ﷺ کے وسیلے سے دعا مانگنا جائز ہے تو کیا یہ ثابت ہے؟

جواب:دعا میں وسیلے سے اصل مقصود تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کا وسیلہ ہے۔کسی نبی یاکسی نیک بندے کے وسیلہ سے دعا کرنا، اس لیے ہوتا ہے کہ اللہ کے نیک بندوں کانام لینے سےاللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے، اس رحمت کے وسیلے سے دعاکی جاتی ہے، خواہ یہ وسیلہ زندوں کاہو یا مرحومین کا،ذوات سے ہو یا اعمال سے،اپنے اعمال سے ہو یا غیر کے اعمال سے سب کی حقیقت اور مرجع توسّل برحمۃ اللہ تعالیٰ ہے، اور چوں کہ توسّل برحمۃ اللہ کے جائز ہونے اور مقبول ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے،لہٰذا توسّل کے جائز ہونے میں بھی کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے۔

حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ’’ نشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب‘‘ میں توسّل فی الدعا کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں:" حاصل توسل فی الدعاء کا یہ ہے کہ اے اللہ فلاں بندہ آپ کا موردِ رحمت ہے اور مورد ِرحمت سے محبت اور اعتقاد رکھنا بھی موجبِ جلبِ رحمت ہے اور ہم اس سے محبت اور اعتقاد رکھتے ہیں، پس ہم پر بھی رحمت فرما ،اور توسل بالاعمال میں بھی تھوڑے تغیر سے یہی تقریر ہے کہ یہ اعمال آپ کے نزدیک موجبِ رحمت ہیں، اور ان کا فاعل بھی مرحوم ہوتا ہے اور ہم نے یہ اعمال کیے تھے پس ہم پر رحم فرما ۔"(فصل:دعا کے وقت آپﷺ کے ساتھ توسل کرنا،63، ط: مشتاق بک کارنر ،لاہور)

توسّل فی الدعا کامفہوم ومقصود معلوم ہوجانے کےبعد یہ بھی واضح رہے کہ حضورﷺ کے توسّل سے دعا مانگنا صحیح احادیث سے ثابت ہے، رسول اللہ ﷺ کی حیات پاک میں بھی اور آپ ﷺ کی وفات کے بعد بھی صحابہ کرامؓکا آپ ﷺ کے وسیلے سے دعا مانگنا ثابت ہے، آپ ﷺ نے خود بھی ایک نابینا صحابی ؓ کو اپنے وسیلے سے دعا کا طریقہ سکھایا ہے۔

سنن ترمذی میں ہے کہ عثمان بن حنیف سے روایت ہے: ایک نابینا شخص نبی کریم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور کہاکہ آپﷺ دعا فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ مجھے عافیت عطا فرمائے! آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تم چاہو تو میں تمہارے لیے دعا کروں اور چاہو تو تم صبر کرو، یہ تمہارے لیے بہتر ہوگا، اس نے کہا: آپ میرے لیے دعا فرمائیے، آپ ﷺنے اسے حکم دیا کہ اچھی طرح وضو کرو اور ان الفاظ سے دعا کرو:’’ اللّٰهُمَّ إِنِّی أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّكَ مُحَمَّدٍ نَبِی الرَّحْمَةِ، إِنِّی تَوَجَّهْتُ بِكَ إِلَى رَبِّی فِی حَاجَتِی هَذِهِ لِتُقْضَى لِی، اللَّهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِی .‘‘ ترجمہ: اے اللہ میں آپ سے سوال کرتا ہوں اور آپ کی طرف متوجہ ہوتاہوں آپ کے نبی محمد ﷺ کے وسیلے سے جو نبی الرحمہ ہیں، اے میرے رب بے شک میں اپنی اس حاجت میں آپ کی طرف آپ کے ذریعے متوجہ ہوتاہوں؛ تاکہ آپ میری حاجت پوری فرمائیں، اے اللہ میرے بارے میں ان (نبی کریم ﷺ) کی سفارش قبول فرمائیے۔ (سنن الترمذی، أبواب الدعوات، 5/ 569، ط: شرکۃ مکتبۃ ومطبعۃ مصطفی البابی الحلبی)

المعجم الصغیر للطبرانی میں ہے: ایک شخص حضرت عثمان بن عفان ؓکے پاس کسی کام کے سلسلے میں آیا جایا کرتا تھا اور حضرت عثمان بن عفان ؓ نہ تو اس کی طرف توجہ فرماتے اور نہ ہی اس کی حاجت براری کرتے، وہ شخص حضرت عثمان بن حنیف ؓسے ملا اور اس بات کی شکایت کی تو انھوں نے فرمایا کہ وضو کی جگہ جا ؤاور وضو کرو ، پھر مسجد میں جاکر دو رکعت نماز پڑھو ، پھر کہو: اللّٰهم إنی أسألك وأتوجه إليك بنبينا محمد صلى اللہ علیه و سلم نبی الرحمة. ترجمہ: اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور بوسیلہ محمد ﷺتیری طرف متوجہ ہوتا ہوں جو نبی الرحمہ ہیں۔ (المعجم الصغير، باب الطاء، 306/1، المکتب الاسلامی بيروت، عمان) (جاری ہے)