موسم گل اور اردو زبان پر بہار

April 04, 2014

اب کے شہر بہاول پور میں بیک وقت دو بہاریں آئیں، ایک پھولوں پر اور دوسری اردو زبان پر۔ صحرائے چولستان سے لگے لگے جنوبی پنجاب کے اس شہر میں عجیب واقعہ ہوا۔ وہاں اردو زبان کے نام پر ایک عالمی اجتماع ہوا۔ تقریباً دس ملکوں کے کوئی پچاس دانشور اکٹھے ہوئے۔ سب نے ایک ہی معاملے پر غور کیا’’اردو زبان کو کیوں کر فروغ دیا جائے؟‘‘ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ معاشرے میں اس زبان کو اس کا جائز مقام کیسے دلایا جائے۔ اس زبان کو جو کہنے کو کسی کی بھی نہیں لیکن درحقیقت ہر ایک کی ہے، اسے معاشرے کی مشترک زبان کیوں نہ سمجھا جائے۔ سیدھے سادے الفاظ میں یہ کہ جو بات عرصہ ہوا طے ہو چکی اس بات کو سیاست کے شور میں دبنے نہ دیا جائے اور اردو کو مملکت پاکستان کی قومی زبان تسلیم کیا جائے۔ بہاول پور کی اسلامیہ یونیورسٹی اور فلاحی ادارے وسیب کے اشتراک سے بلائی جانے والی اس عالمی اردو کانفرنس میں تین دن تک زبان کے مختلف پہلوئوں پر بات ہوتی رہی۔ کبھی کسی عزم کا اعلان ہوا کبھی کسی منصوبے کا، کبھی زبان کو درپیش مسائل حل کرنے پر گفتگو ہوئی اور کبھی علاقائی زبانوں کی اہمیت کا اعتراف کیا گیا۔ بہاول پور شہر اس خطّے میں واقع ہے جو سرائیکی زبان کا علاقہ کہلاتا ہے لیکن علاقے کے سرکردہ دانشوروں نے کھل کر کہا کہ قومی زبان کے نام پر اردو کو جو مقام حاصل ہے وہ کسی دوسری زبان کو نہیں، خاص طور پر سرائیکی سرزمین کے اعلیٰ دانشور نصراللہ خان ناصر نے زور دے کر کہا کہ اگرچہ سرائیکی زبان سے ان کا گہرا جذباتی رشتہ ہے لیکن اردو ایک قومی اثاثہ ہے۔ مختلف قراردادیں پیش کر کے اسے اس کے مقام سے اتارا نہیں جا سکتا۔ اردو سرحدوں سے ماورا ہے۔ یہ بات بھارت کے مفکرین زبیر رضوی اور ڈاکٹر علی جاوید نے یوں بھی کہی کہ یہ زبان دو پڑوسی ملکوں کو ایک ڈور سے باندھتی ہے۔ اس بات کو آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے اساتذہ، شعراء اور ادباء نے کہا کہ ملک کے تمام صوبوں کو یکجا کرنے کی غیرمعمولی قوّت اسی زبان ’’اردو‘‘ میں ہے۔
بہاول پور کی اس عالمی اردو کانفرنس کو اس کے مندوبین کی وجہ سے یاد رکھا جائے گا جن میں دور حاضر کے بڑے افسانہ نگار انتظار حسین، نسائی شاعری کی علم بردار کشور ناہید، سرکردہ ڈرامہ نگار اصغر ندیم سید، ڈاکٹر انوار احمد، تبسم کاشمیری، آصف فرخی، یوسف خشک شامل ہیں۔ کانفرنس میں وفاقی جامعہ اردو کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر ظفر اقبال بھی شریک تھے جن کا اس بات پر اصرار تھا کہ اردو جیسی توانا زبان کا درجہ گھٹایا نہیں جا سکتا۔ کانفرنس میں شرکت کے لئے ترکی سے پروفیسر درمش، مصر سے ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم السید آئے تھے جو جامعہ الازہر میں لڑکیوں کو اردو پڑھاتے ہیں۔ ان کے ہمراہ قاہرہ سے ڈاکٹر احمد ماضی بھی آئے تھے جو اسی جامعہ میں لڑکوں کو اردو کی تعلیم دیتے ہیں۔ ان دونوں نے شکایت کی کہ الازہر میں اردو کی تعلیم کیلئے پاکستان سے ہمیشہ ایک استاد آیا کرتا تھا اب کچھ عرصے سے یہ سلسلہ بند ہے۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ اس میں قصور اردو زبان کا نہیں، سیاست دان کا ہے۔ انہی سیاستدانوں نے قومی زبان کے ادارے مقتدرہ کا برا حال کیا ہے جس کے سابق سربراہ ڈاکٹر انوار احمد نے بھی کانفرنس سے خطاب کیا اور اردو کے فروغ کیلئے اپنے تجربے کی بنا پر مختلف تجاویز پیش کیں۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر محمد مختار نے اس کانفرنس کے سلسلے میں غیر معمولی دلچسپی کا اظہار کیا اور جامعہ کے مہمان خانے مندوبین کیلئے کھول دیئے۔ اردو کے سرکردہ استاد ڈاکٹر نجیب جمال اس پوری کانفرنس کی منصوبہ بندی میں پیش پیش تھے۔ وہی اجلاس کی نظامت کا فرض انجام دیتے رہے جس کی انہوں نے بجا طور پر داد پائی۔
اس تاریخی مباحثے اور مذاکرے کا ایک رخ اور بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ بعض اوقات یہ طے کرنا مشکل ہو گیا کہ یہ اردو کانفرنس ہے یا ایم اے اردو کا کلاس روم۔ اساتذہ نے بارہا کانفرنس کے شرکاء کو اعلیٰ جماعتوں کے طلبہ تصوّر کیا اور ان کے ساتھ وہی سلوک بھی کیا۔ کتنے ہی مقالے جواب مضمون تھے جن میں علم تو کوٹ کوٹ کر بھرا تھا لیکن سوال یہ تھا کہ اردو غزل کدھر جا رہی ہے؟ کیا یہ واقعی ہمارا مسئلہ ہے؟ اردو کی شکل بگڑ رہی ہے۔ الفاظ وہی ہیں مگر مفہوم مسخ ہوتا جا رہا ہے۔آج کا میڈیا اس زبان کے ساتھ کھلواڑ کرنے لگا ہے، اس پر انگریزی کی یلغار ہو رہی ہے۔ تلفّظ بگڑ رہا ہے، یہاں تک کہ نئی نسل کا خط خراب ہو گیا ہے۔ اردو نثر پیچھے جا رہی ہے اور شعر گوئی مرض کی شکل اختیار کر چلی ہے۔ اردو جماعتوں اور اساتذہ کی حالت خراب ہے۔ اردو کی درسی کتب اتنی ناقص ہیں کہ انہیں دیکھ کر شرم آتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اردو میں بچّوں کا ادب نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ لوگ بچّوں کے لئے بہت لکھتے، ناشر چھاپتے ہیں، کتب فروش فروخت نہیں کرتے اور والدین خرید کر بچّوں کو دیتے نہیں۔ خود بچّوں کی ترجیحات میں کتاب نیچے چلی گئی ہے اور برگر اوپر آ گیا ہے۔ ایسے کتنے ہی گمبھیر معاملات تھے جن پر بات ہونی تھی مگر نہیں ہوئی۔البتہ کانفرنس کے خاتمے کے بعد ایک یادگار مشاعرہ ہوا جو صحیح معنوں میں بین الاقوامی تھا۔ خوب اشعار پڑھے گئے اور سر دھنے گئے۔ وائس چانسلر صاحب کے بقول وہ اتنے سرشار ہوئے کہ صبح پانچ بجے تک نیند نہیں آئی۔
آخر میں ایک ضروری بات۔ اس طرح کی کانفرنسوں کے پیچھے کچھ خاموش رضاکار بھی ہوتے ہیں جو پس منظر میں رہ کر انتھک محنت کرتے ہیں، وہ خود بھی سامنے نہیں آتے، نہ ان کے ناموں کی تشہیر ہوتی ہے اور نہ ان کی مشقت کا اعتراف کیا جاتا ہے۔ بہاول پور کی اس عالمی اردو کانفرنس کی دوڑ دھوپ میں اگر علی معین، اسلم ادیب اور مسعود صابر شریک نہ ہوتے تو کانفرنس رہی ایک طرف،اس کے خواب سے بھی ہم سب کی آنکھیں محروم رہتیں۔ اس کانفرنس نے جہاں اور بہت سے کام کئے، ہماری آنکھیں بھی کھولیں۔