اقبالؒ اور استاد امام دین گجراتی

April 05, 2014

برادرم حامد میر، سجاد میر اور حفیظ اللہ نیازی خواہ مخواہ دلائل پر اتر آئے، تاریخی شواہد کے انبار لگا دیئے اور منطق و استدلال سے اقبالؒ ناشناس کا منہ بند کرنے کی سعی کی۔ استادامام دین گجراتی کو بھول گئے۔ وہی امام دین گجراتی جس نے ’’بانگ ِ درا‘‘ کے مقابل ’’بانگ ِ دہل‘‘ کاخوانچہ سجایا اور کہا ؎
استاد بھی غالبؔ و اقبال سے کم تر تو نہیں
اگر اُدھر بانگ درا ہے تو اِدھر بانگ دہل
غالب شکنی میں یگانہ چنگیزی نے عمر برباد کرلی، خداداد شعری صلاحیتوں کو زنگ لگا اور ہم عصروں نے مضحکہ اڑایا ؎
خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ، مگر بنا نہ گیا
استاد امام دین کا معاملہ مگر مختلف تھا۔ بانگ ِ دہل میں بھی اقبالؒ سے عقیدت اور اعتراف عظمت نمایاں ہے۔ زعم و تعلی کا شکار ہے۔ کور چشم و بد ذوق نہیں کہ اقبالؒ کا انکار کرتے؎
لاکھوں ملیں گے مگر اقبالؒ جیسا
ملے گا نہ ہم پیشوا دیکھتے ہیں
بعد صدیوں کے ہوتا ہے ایسا مدبر
یہ قانونِ قدرت کا ’’لاء‘‘ دیکھتے ہیں
نعت کا ایک شعر تو استاد امام دین کی لازوال شہرت کا سبب اور روز ِ قیامت شفاعت کا ذریعہ ہے؎
پیغمبرؐ کا جہاں پر آستاں ہے
زمیں کا اتنا ٹکڑا آسماں ہے
بانگ دہل کی باقی شاعری بس ایسی ہی ہے؎
کوئی بادشاہ، ہم نے ایسا نہ دیکھا، جیسا جرمن
بالکل نالائق، پاگل، بے وقوف، دیوانہ، واہیات
پنجابی شاعری کا ایک نمونہ ہے؎
قبض کی شکایت اگر تم کو ہووے
تو کھا مولیاں اور مٹر مام دینا
جنت میں کوئی سیٹ خالی نہیں ہے
خوشی سے جہنم میں وَڑ مام دینا
امریکہ افغانستان میں خاک چاٹ کر بصد سامان رسوائی واپسی کے درپے ہے اور خطے میں اس کی مادر پدر آزادعریاں تہذیب و ثقافت، شراب و شباب کی رسیا فکری اولاداور مذہب بیزار سیاسی اپروچ کو پروان چڑھانے کی سعی و تدبر ناکامی کامنہ دیکھ رہی ہے تو مرغوب ذہنوں کا خوف دید نی ہے اور عالم بدحواسی میں کبھی اقبالؒ کے منہ لگتے ہیں کبھی قائدؒ سے چھیڑخانی کرتے ہیں۔ مجھےاستاد امام دین یادآتے ہیں۔ انہوں نے ایک سرکاری افسر کی گجرات سے رخصتی پر لکھا؎
کیا پوچھتے ہو کہ کیا ہو چلے
ملک صاحب ہم سے جدا ہو چلے
خدا کے لئے کوئی ان کو ٹھہرا لو
ورنہ یہ سب دم، ہوا ہو چلے
افضل سے پوچھو تو استاد کچھ بھی
ہم سب اب تو بے آسرا ہو چلے
اقبالؒ کی استعمار دشمنی، مغربی تہذیب سے بیزاری، آزادی کی تڑپ اور انگریز کے مظالم پر صدائے احتجاج سے کوئی دیانتدار قاری ناواقف ہے نہ ان کی فکری تگ و تاز میں ابہام، دو عملی، کم کوشی اورمصلحت بینی کاشاکی مگر جن کا مقصد ہی اقبالؒ شکنی اور قائدؒ کے خیالات میں ملاوٹ ہو انہیں بھلا کون سمجھا سکتاہے۔ اقبال ؒ اور قائدؒ تو علامت اور استعار ہ ہیں جنہیں اسلام، مسلم قومیت، دو قومی نظریئے اور اسلامی نشاۃ ثانیہ سے چڑ ہے وہ علامت اور استعارے پر نشانہ لگا کر ہی اپنا غصہ نکال سکتے ہیں۔
اقبالؒ کی سیاسی بصیرت میں کوئی نقص تھا نہ جدید اسلامی فلاحی، جمہوری ریاست کے حوالے سے قائداعظمؒ کی سوچ میں کسی قسم کاجھول۔ جو جاگیردار، وڈیرے، سرمایہ دار اور عوام دشمن اقبالؒ کی فکر سے پٹ گئے اور قائداعظمؒ کے مدمقابل کھڑے نہ ہوسکے۔ جو ملّا، برادر سیکولر دانشور ایک اسلامی فلاحی ریاست کوہضم نہیں کرپائے وہ اور ان کے خوشہ چین موجودہ بے سمت اور بے راہرو معاشی و سیاسی صورتحال کافائدہ اٹھا کر کبھی اقبالؒ پر زبان طعن درازکرتے ہیں کبھی قائدؒ کو اپنی مرضی کے سانچے میں فٹ کرنے کی سعی ناکام مگر اتنی اخلاقی جرأت نہیں کہ کھل کر اصل مدعا بیان کرسکیں۔ معاشرے کو لادین، اخلاقی حدود و قیود سے عاری اور مذہب بیزار بنانےکی خواہش ظاہر کرسکیں۔
جس فکری سومنات کو اقبالؒ اپنی تحریروں، تقریروں اور شعری و نثری کلام سے نہیں ڈھا سکے ۔ قائدؒ کی 1100 تقریریں بےکار گئیں اور ان کے دل و دماغ کے قفل کھل نہیں سکے۔ بدستور مرغ کی ایک ٹانگ پر اصرار کئے جارہے ہیں ان کے لئے حامد میر، سجاد میراور دوسرے دوست دلائل کے انبار لگائیں یا تاریخی شواہد کااہتمام کریں بے سود ہے؎
مرد ناداں پر کلام نرم نازک بے اثر
یگانہ چنگیزی نے غالبؔ شکنی میں عمر کھپا دی۔ استاد امام دین بانگ دہل کو بانگ درا سے ٹکراتے گزر گئے۔ غالبؔ کا کچھ بگڑا نہ اقبالؒ کی عظمت میں فرق پڑا۔ ناقد بیچارے اپنا قد بھی اونچا نہ کرسکے۔ آج بھی اس فضول مشق کے شوقین صرف اقبالؒ کے عقیدت مندوں اورقائدؒ کے پیروکاروں کے جذبات مجروح کرسکتے ہیں۔ یہ ان کا مستقل وطیرہ ہے۔ اس کے سوا کچھ نہیں۔
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفویؐ سے شرارِ بولہبی