کتاب میلہ...آن دا ریکارڈ

April 25, 2014

جناب عطاء الحق قاسمی گزشتہ دنوں اسلام آباد کی ایک تقریب میں ڈاکٹر انعام الحق جاوید سے اپنی دیرینہ دوستی کا ذکر کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ انعام صاحب سے دوستی ہے، کیوں ہے؟ مجھے خود بھی اس کا پتہ نہیں، بس دوستی ہے۔ اسی طرح میری کتاب سے دوستی ہے، کیوں ہے؟ مجھے بھی اس کا پتہ نہیں، بس دوستی ہے۔ میرے گھر میں اس وقت قریب قریب سات ہزار کتب ہیں۔ ناموس رسالتؐ اور ردِقادیانیت پر جتنی میری کلیکشن ہے راولپنڈی اسلام آباد میں شاید ہی کسی کے پاس ہو، دنیا بھر کا ایٹمی نیٹ ورک میرا دوسرا موضوع ہے اور شاعری میری پہلی شناخت ہے۔پاکستان کے کسی بھی شہر میں ہوتا ہوں تو اتوار کو اس شہر کے فٹ پاتھوں پر پرانی کتب تلاش کر رہا ہوتا ہوں۔ اس حوالے سے ملک بھر کے کباڑیئے میرے واقف ہیں۔ اکثر محض رابطے میں رہنے کیلئے روزانہ مجھے فلسفیانہ قسم کے SMS کرتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میرے پاس ایسے ایسے نایاب مخطوطے ہیں کہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طالب علم اپنے موضوع کے حوالے سے مجھ سے کتاب لینے کیلئے پہنچ جاتے ہیں۔میں گزشتہ تقریباً چالیس برس سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہوں۔ مختلف ماہناموں، ہفت روزوں اور روزناموں کا ایڈیٹر رہا۔ اس عرصے میں بہت سے لوگوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ ہمارے حکمرانوں میں جنرل ضیاء الحق بہت زیادہ مطالعہ کیا کرتے تھے۔ وہ جتنا زیادہ پڑھتے تھے اتنی ہی لمبی لمبی تقاریر کیا کرتے تھے۔ مطالعے نے انہیں انسانوں کے اتنا قریب کر دیا تھا کہ وہ زندگی کے ہر پہلو پر بھرپور نگاہ رکھتے تھے۔آرمی چیف بنے تو کل پاکستان مشاعرہ کروا ڈالا۔ شعراء کو اعزازیہ دینے کی باری آئی تو سید ضمیر جعفری کے کان میں کہا کہ ’’ضمرو احسان دانش کو پندرہ سو روپے زیادہ دینا، اس کے مالی حالات ٹھیک نہیں ہیں اور اس کے کپڑے بھی پرانے ہیں‘‘۔ ضمیر جعفری صاحب نے کہا ضیاء صاحب آپ نہیں جانتے ان دیگر اجلے کپڑوں والے قلم کاروں کے حالات کس قدر بوسیدہ ہیں لہٰذا میں سب کو پندرہ، پندرہ سو روپے زیادہ دوں گا۔ سیاستدانوں میں مولانا عبدالستار خان نیازی بہت زیادہ مطالعہ کیا کرتے تھے۔ کوئی بھی نئی کتاب آتی تو مجھے فون کرتے۔ میں ایک ہفتے کیلئے ان کو ان کی پسند کی کتاب پہنچا دیاکرتا تھا۔ ان کی عینک کے شیشے آخری نمبر کے تھے۔ وہ کتاب کو عینک کے ساتھ لگا کر بڑی مشکل سے پڑھا کرتے تھے مگر پڑھنے سے باز نہیں آتے تھے۔ سائنس دانوں میں محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان بہت زیادہ مطالعہ کرتے ہیں۔ 1983ء سے آج تک ہمارے تعلقات کی وجہ کتاب دوستی ہے۔ میری طرف سے ڈاکٹر صاحب کو اور ان کی طرف سے دنیا بھر سے نایاب کتب کی فوٹو کاپی کرا کے خوبصورت جلدبندی کے بعد مجھ تک پہنچتی رہتی ہیں۔ راولپنڈی اسلام آباد کے اساتذہ میں ہمارے ایک دیرینہ دوست جناب حسین عارف نقوی کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ اسلام آباد کی پرائیویٹ لائبریریوں میں ان کی لائبریری سب سے بڑی تھی۔ بیمار پڑے،اسپتال میں داخل ہوئے تو مرنے سے دو دن پہلے جب ان کے بولنے کی سکت بھی کمزور پڑ چکی تھی تو ایرانی سفیر نے رابطہ کر کے کہا کہ ملنے کیلئے آنا چاہتا ہوں، کون سا پھل پسند کرتے ہیں؟ تو نقوی صاحب نے کہا کہ پھل کو چھوڑیں، تہران یونیورسٹی میں پاکستانی کالم نگاروں پر پی ایچ ڈی ہوئی ہے، اس مقالے کی کاپی لیتے آئیں۔
میں نے گزشتہ دنوں نیشنل بک فائونڈیشن کی ایک تقریب میں یہی کہا تھا کہ ہمارے بچپن میں مومی نہیں کاغذی لفافے ہوا کرتے تھے، میں اکثر گنڈیریاں کھایا کرتا اور بعد میں لفافہ پھاڑ کے پڑھتا تھا، یوں مجھ میں مطالعے کا شوق پیدا ہوا۔ اللہ کا بڑا کرم کہ میری بیگم اور بچّوں کو بھی کتاب دوستی کا احساس ہے لیکن ایک بار بیگم سے بدمذگی ہوتے ہوتے بچی۔ گزشتہ ستمبر ہم سب کراچی گئے ہوئے تھے،واپسی پر چاروں بچّوں کی اٹیچیوں سے کپڑے نکال کر اسلام آباد کیلئے کارگو کر دیئے اور ان خالی اٹیچیوں میں کراچی کے فٹ پاتھوں سے خریدی گئی کتب بھر دیں۔ بیگم نے کہا آپ کتب بھی تو کارگو کر سکتے تھے۔ میں نے کہا ان کے چوری ہونے کا اندیشہ تھا۔ بیگم بولیں! جس ملک کی شرح خواندگی کا یہ عالم ہو کہ دستخط کر لینے والا بھی پڑھا لکھا شمار ہوتا ہو وہاں کتب کی چوری کوئی چوری نہیں ہوتی، آپ نہ سہی کوئی اور پڑھ لیتا۔ میں نے کہا لیکن کسی لفافے بنانے والے کے ہاتھ بھی لگ سکتی تھیں۔ وہ بولیں کہ آپ کے مطالعے کی بنیاد بھی تو لفافہ ہی ہے، اگر کوئی دوسرا اس راہ پر چل کر آپ کی طرح دانشور بن جاتا تو اعتراض کیسا،بھلا مطالعہ کہاں انسان کو لاجواب ہونے دیتا ہے لہٰذا میں نے بیگم سے کہا کہ کتب کے معاملے میں آپ میرا استحقاق مجروح کر رہی ہیں اور یوں وہ چپ ہو گئیں لیکن ہم نے چپ نہیں کرنا، ہمیں کتاب بینی، کتاب دوستی اور مطالعے کی دعوت دیتے رہنا چاہئے۔ 1984ء کی بات ہے وزارت اطلاعات ان دنوں ایم بلاک میں ہوا کرتی تھی۔ سیکرٹری اطلاعات جنرل مجیب الرحمن صاحب سے ملاقات کر کے واپس آ رہا تھا کہ اس وزارت کا ایک DR تیز رفتاری سے موڑ کاٹتے ہوئے گرا اور درخت سے ٹیک لگا کے بیٹھ گیا۔ میں بھاگا بھاگا پہنچا، خیریت دریافت کی تو اس نے ہنستے ہوئے کہا کہ ’’میری ٹانگ ٹوٹ گئی ہے‘‘ میں سمجھ گیا کہ اس کا تعلق فیصل آباد سے ہے کیونکہ فیصل آباد کے لوگ لڑائی بھی کر رہے ہوں تو ہنستے رہتے ہیں۔ مثال کے طور سے آپ ڈاکٹر انعام الحق جاوید کو ہی دیکھ لیں، غصّے کی حالت میں بھی ان کے چہرے پر مسکراہٹ رہتی ہے۔
خیر بات فیصل آبادی DR کی ہو رہی تھی۔ میں نے جب اس مضروب سے نام پوچھا تو اس نے سڑک کی دوسری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ بیگ اٹھا لائیں، اس پر میرا نام لکھا ہوا ہے، وہ بھی پڑھ لیں حالانکہ وہ چاہتا تو مجھے نام بتا سکتا تھا مگر اس نے مجھے مطالعے کی ترغیب دی لہٰذا ہمیں مطالعے کی ترغیب دیتے رہنا چاہئے۔ پاکستان نیشنل بک فائونڈیشن کا موجودہ تین روزہ سالانہ کتاب میلہ اس بین الاقوامی Book Day سے جڑا ہوا ہے جو ہر سال 23؍اپریل کو منایا جاتا ہے۔ بک فائونڈیشن کے ایم ڈی اور ممتاز شاعر پروفیسر ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی کتاب سے دوستی کی ترغیب کیلئے اور کتاب میلے میں عوامی دلچسپی بڑھانے کیلئے بہت سارے اقدامات کئے جو لائق تحسین ہے۔جناب عطاء الحق قاسمی شام کے خصوصی سیشن میں جب اپنی یادداشتیں سنا رہے تھے تو اسٹیج پر وہ کتابی چہروں کے درمیان بیٹھے انسائیکلوپیڈیا لگ رہے تھے۔ نیشنل بک فائونڈیشن نے پاکستانی اور دنیا بھر کے اہل قلم، کتاب دوست احباب کے قد آدم پوسٹر اسلام آباد کی شاہراہوں پر لگا کر بابوئوں اور گریڈوں کے اس شہر کو دانشوروں کی بستی بنا دیا ہے۔ پاک چائنا فرینڈشپ کی کئی منزلہ وسیع و عریض اس عمارت میں ہر طرف کتاب ہی کتاب دکھائی دیتی ہے۔ اس میلے کا سب سے خوبصورت پہلو یہ ہے کہ کتاب میلے میں آنے والے ہزاروں شہریوں کو ان کی پسند کی ایک ایک کتاب مفت دینے کی پیشکش بہت سراہی جا رہی ہے۔وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات جناب پرویز رشید کی میلے کی ہر تقریب میں موجودگی ان کی کتاب دوستی کا پتہ دیتی ہے۔ میں دل کی گہرائیوں سے ڈاکٹر انعام الحق جاوید اور بک فائونڈیشن کے دیگر اسٹاف کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔