مذاکرات کا فیصلہ کن مرحلہ اور قومی نقصان؟

May 02, 2014

پاکستان میں امن کی منزل کبھی دور کبھی قریب آتی ہوئی دکھائی دیتی ہے لیکن یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ جب نیک نیتی اور عزم مصمم سے جدوجہد کی جا رہی ہو تو وہ جلد یا بدیر برگ و بار ضرور لاتی ہے۔ ملک میں مستقل امن کا قیام خواب نہیں بلکہ حقیقت ہے جسے انشاء اللہ جلد پورا ہونا ہے۔نشانات منزل کی طرف بڑھتے رہنا ہی کامیابی کی ضمانت قرار پاتا ہے۔ بسا اوقات بڑی رکاوٹیں راستے میں حائل ہوجاتی ہیں مگر انہی رکاوٹوں کو عبور کرکے ہمیشہ حقیقی منزل تک پہنچا جاتا ہے۔ حکومت، طالبان براہ راست مذاکرات کے دوسرے اہم دور کا آغاز اب ہونے کو ہے۔ حکومتی اور طالبان کمیٹیوں کی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سے ملاقات میں آئندہ مذاکرات کاحتمی ایجنڈا بھی طے کرلیا گیا ہے۔حکومت اور طالبان دونوں فریقین آئندہ مذاکراتی مرحلے کی کامیابی کے لئے زیادہ پرجوش دکھائی دے رہے ہیں اور صورتحال امید افزاء نظر آرہی ہے۔البتہ ہمارے مذاکرات مخالف تجزیہ کار کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔وقتی طور پر اگر کسی وجہ سے مذاکرات میں تعطل پیدا ہو تو وہ اپنا پرانا’’راگ‘‘الآپنا شروع کر دیتے ہیں کہ ہم نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ طالبان سے مذاکرت کامیاب نہیں ہوں گے۔ اب یہ معلوم نہیں کہ امریکی محبت میں گرفتار یہ دانشور کس کی خدمت کررہے ہیں؟یہ ملک وقوم کی تو کوئی خدمت نہیں ہے؟پاکستان کامفاد تواسی میں ہے کہ ہم نام نہاد امریکی جنگ سے جتنی جلد ممکن ہوسکے چھٹکارا حاصل کرلیں۔ آخر نائن الیون کے بعد سوائے خسارے کے ہمیں اس’’پرائی جنگ‘‘سے کیاحاصل ہوا ہے؟ اس سے بڑاسچ اور کیا ہوسکتا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کیلئے نوازشریف حکومت نے جب سے طالبان سے مذاکرات کاسلسلہ شروع کیا ہے ملک کے مختلف علاقوں میں بم دھماکے بڑی حد تک ختم ہوچکے ہیں، ڈرون حملوں کی بندش سے بھی پاکستانی عوام نے سکھ کا سانس لیا ہے۔ اب حکومت کو یکسوئی کے ساتھ طالبان سے براہ راست مذاکرات کے آخری مرحلے کو مکمل ایجنڈے کے ساتھ آگے بڑھانا چاہئے۔ اس فیصلہ کن موڑ پر ’’یوٹرن‘‘ نہیں بلکہ پیش قدمی کی ضرورت ہے۔ ماضی میں ملکی و قومی مفاد کے اہم ایشوز سے ’’یوٹرن‘‘ لینے سے پاکستان نے خاصا نقصان اٹھایا ہے۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد افغانستان اور پھر کشمیر میں جاری تحریک آزادی کی پالیسی میں ’’یوٹرن‘‘ لینا پاکستان کو بڑا مہنگا پڑا ہے۔ اس کا فائدہ امریکہ اور بھارت نے اٹھا یا۔پوری قوم مذاکراتی عمل کوکامیاب بنانے کیلئے موجودہ حکومت کے شانہ بشانہ کھڑی ہوئی ہے۔اس سے بہتر موقع حکومت کے پاس اور کوئی نہیں ہوسکتا۔اب طالبان کیساتھ مذاکراتی عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچاکر بلوچستان اور کراچی کے حالات ٹھیک کرنے چاہئیں۔یہ بھی ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے کہ پاکستان کا دشمن ہمیں قبائلی علاقوں میں الجھاکر بلوچستان اور کراچی میں گھنائونا کھیل جاری رکھے ہوئے ہے۔یہ صرف اس صورت ممکن ہوسکتا ہے کہ جب ہماری قیادت قومی مفادات کے حصول کے لئے ایک پیج پر مشترکہ جدوجہد کرے۔ وزیراعظم نوازشریف کی زیر صدارت سول اور فوجی قیادت کے حالیہ تازہ ترین اجلاس میں اس عزم کااظہار خوش آئند ہے کہ مذاکراتی عمل کو طول نہیں دیا جا سکتا۔ طالبان سے اب فیصلہ کن بات چیت ہو گی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری سول اور فوجی قیادت بھی اب یہ بھانپ چکی ہے کہ مذاکراتی عمل میں بلاوجہ تاخیر کسی بڑے قومی نقصان کاباعث بن سکتی ہے۔وزیر اعظم ہائوس کے اجلاس میں وزیر داخلہ چوہدری نثار خان،آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیر الاسلام عباسی اور وزیراعظم کے معاون خصوصی طارق کاظمی کی شرکت سے یہ بات بآسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے کہ حکومت اس معاملہ کو انتہائی سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے۔اب یہ معاملہ ’’پوائنٹ آف نو ریٹرن‘‘پر پہنچ چکا ہے۔قوموں کی زندگی میں اس طرح کے اہم اور فیصلہ کن مراحل آتے ہیں ان دشوار گزار مرحلوں سے کامیابی سے گزرنا ہی اصل کام ہوتا ہے۔طالبان مذاکراتی کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم نے بھی درست تشخیص کی ہے کہ طالبان شوریٰ کے مطالبات ملنے کے بعد اصل مذاکرات شروع ہوں گے۔دونوں کمیٹیوں کی آرمی چیف سے ملاقات ہونی چاہئے۔ طالبان کی سیاسی شوریٰ کے ارکان سے آئندہ حکومتی مذاکرات شمالی وزیرستان میں متوقع ہیں۔ ان مذاکرات کو بامقصد اور نتیجہ خیزبنانے کیلئے دونوں فریق پُرامیدہیں۔مذاکرات کے اس آئندہ فیصلہ کن مرحلے میں امید واثق ہے کہ جنگ بندی میں توسیع، قیدیوں کے تبادلے اور پیس زون کے قیام میں عملی طور پر پیشرفت ہو جائیگی۔ اب یہ حکومت اور طالبان دونوں پرکڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ وقت ضائع کئے بغیر مذاکرات کوکامیاب بنانے کیلئے فراغ دلی کامظاہرہ کرکے امن کے قیام اورمستقل جنگ بندی کااعلان کریں۔ وزیراعظم نوازشریف نے بجا طور پر درست کہاہے کہ بات چیت کے ذریعے امن لانا چاہتے ہیں۔ آئرلینڈکی مثال ہمارے سامنے ہے۔وزیر اعظم کے جذبات قابل قدر ہیں مگر عملاً مذاکراتی عمل میں حکومت کی جانب سے غیر ضروری تاخیر افسوسناک ہے۔ حکومت کی لوڈشیڈنگ، مہنگائی اور غربت و بیروزگاری پر قابو پانے میں کارکردگی اگرچہ مایوس کن ہے مگر طالبان سے مذاکرات سے متعلق اس کی سوچ ،پالیسی اور اقدامات کو عوامی حلقوں میں سراہا گیا ہے۔ حکومت طالبان مذاکرات کے مثبت نتائج قوم کے سامنے ہیں۔ کسی مسئلے کا حل بہرحال مذاکرات ہی ہوتے ہیں۔ ماضی میں فوجی آپریشنوں کے تلخ نتائج برآمد ہوئے اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ اب پاکستان کسی مزید فوجی آپریشن کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ گزشتہ سال آل پارٹیز کانفرنس کے بعد سے ہی قوم کی نظریں ملک میں امن کی متلاشی ہیں۔ مذاکراتی عمل خاصی تاخیر سے آگے بڑھا اور اب بھی روایتی سست روی جاری ہے لیکن اب کسی غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ تاخیری حربوں سے ملک دشمن بیرونی قوتوں کو تو فائدہ پہنچ سکتا ہے لیکن پاکستان کیلئے یہ زہر قاتل ہیں۔جہاں تک پرویزمشرف کیس کامعاملہ ہے اسے طالبان سے مذاکرات کیساتھ نتھی نہیں کرنا چاہئے۔ یہ کیس عدالت میں ہے اور عدالت جو فیصلہ دے اسے سب کوخوش دلی سے قبول کرنا چاہئے۔پرویزمشرف کے کیس میں حکومت اور پوری پاکستانی قوم کا موقف ایک ہے کہ انہیں عدالتی فیصلوں کے آگے سر تسلیم خم کرناچاہئے۔المیہ یہ ہے کہ سابق ڈکٹیٹر خود تو مکافات عمل سے دوچار ہے مگر جذبہ انتقام میں اس نے بڑی کامیابی کیساتھ سول اور فوجی حکومت کے درمیان تعلقات میں بھی دراڑیں ڈال دی ہیں۔سول اور فوجی قیادت کو موجودہ حالات کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے کسی بھی ایسے ’’ٹکرائو‘‘ سے بچنا ہو گا جس کے نتیجے میں غیر جمہوری قوتوں کو فائدہ ہو جنہوں نے بڑی چالبازی سے سول حکومت اور میڈیا کیساتھ فوج کی محاذ آرائی پیدا کر دی ہے۔اس سازش کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔حکومت اور میڈیا کایہ بھی فرض ہے کہ حالات کو کسی ایسی نہج پر نہ جانے دیاجائے جس سے جمہوریت کو ہی نقصان پہنچ جائے۔