دہشت گردی کے خلاف پاک افغان تعاون

July 27, 2016

وزیراعظم نواز شریف نے پیر کے روز افغان صدر اشرف غنی کو فون کرکے ہزارہ برادری کے احتجاجی جلوس پر داعش کی طرف سے کئے جانے والے خودکش حملے پر شدید دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لئے افغانستان کے ساتھ تعاون کے لئے پوری طرح پرعزم ہےاور اس سانحہ کی بھرپور مذمت کرتا ہے۔ پاکستان اوائل ہی سے اس موقف کا حامی ہے کہ دہشت گردی نے اب ایک ایسی ہمہ جہت اور پیچیدہ شکل اختیار کرلی ہے کہ تمام ممالک کو اس کے خلاف مل جل کر جنگ کرنا ہوگی۔ جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں شاعر مشرق علامہ اقبال نے کہا ہے کہ افغانستان ایشیا کا دل ہے اگر یہاں امن ہوگا تو پورے ایشیا میں سکون ہوگا۔ پاکستان کے افغانستان کے ساتھ صدیوں پرانے تاریخی و تہذیبی رشتے ہیں اوراسلام آباد نے ہر مشکل وقت میں افغانستان کا ساتھ د یا ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اس نے نہ صرف افغان تحریک مزاحمت کے دوران افغانوں کا ساتھ دیا بلکہ وہ اب تک 55 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی اپنی کمزور معیشت کے باوجود میزبانی کرتا چلا آرہا ہے۔پاکستان افغانستان کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر بھی ہے اور اس کی غذائی ضروریات کا بڑا حصہ بھی پاکستان ہی پوراکرتاہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے افغان حکومت کے ذمہ داران کا کردار خاص طور پر دہشت گردی سے نمٹنے کے حوالے سے کسی طرح قابل رشک نہیں ہے۔افغان صدراشرف غنی نے اپنے ایک حالیہ الزام میں تو یہاں تک کہہ دیا کہ انہیں طالبان اور القاعدہ سے اتنا خطرہ نہیں جتنا پاکستان سے ریاستی تعلقات سے ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے آپریشن ضرب ِ عضب کی تعریف بھی کرتے ہیں مگر اسلام آباد پر الزام تراشی سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اگر ان سارے حالات کے باوجود وزیراعظم نوازشریف کا افغانستان میں خودکش حملے میں ہونے والی ہلاکتوں پر اظہار ہمدردی ایک مثبت قدم ہے ۔