جدید ادب، دہشت گردی کے خلاف کیا دکھا رہا ہے

May 16, 2014

اس دفعہ میں نے دنیا زاد اٹھایا۔ پڑھ کر کچھ بجھ سی گئی۔ کہانی چاہے زاہدہ حنا کی تھی کہ سعید نقوی کی کہ حسن منظر یا خالدہ حسین کی۔ سب میں کھلونا بم سے لیکر خودکش بمبار کی آفت زدگی کے باعث، معاشرے پر نفسیاتی اثرات رقم کئے ہیں۔ اس سے ذرا آگے ذائقہ بدلنے کو بڑھی تو خالد جاوید کی کہانی نے گرفتار کرلیا۔ کاک روچ، جن سے جان چھڑانے کیلئے ہر باورچی خانے کو چاہے کتنا بھی صاف رکھو بقول خالد جاوید باورچی خانہ ایک خطرناک جگہ بن جاتی ہے۔ خالد جاوید نے چھپکلیوں، چمگادڑوں اور کاک روچ سب کو مجسمہ کردیا۔ سچ ہے خودکش بمباری کے زمانوں میں، ساری نحوست زدہ اشیاء، مجسمہ ہوجاتی ہیں۔ وہ مارا گیا، اس کا سر مل گیا۔ اس کا دھڑ مل گیا۔ یہ سارے منظر نامے، ساری کہانیوں کے ہر منظر سے جھلکتے ہیں۔ چاہے اس کا نام انور سن رائے کے انداز میں حوالدار رکھو اور چاہے فہمیدہ ریاض کے انداز میں مزدک۔ مسعود اشعر نے بجا کہا کہ دو چار مرنے والوں کی خبر تو اب کوئی خبر ہی نہیں رہی۔ اس کے بعد دس بارہ بھی روزمرہ میں شامل ہیں۔ سیکڑوں کی خبر ہو تو سب ملال کرتے ہیں۔ کھانا پینا پھر بھی نہیں چھوڑتے ہیں۔ یہیں اگلے صفحوں میں نظمیں خون میں ڈوبی ہوئی نظر آتی ہیں۔ زہرہ نگاہ ہو کہ مصطفی ارباب اور نئے شاعر عمران شمشاد کی ظالم نظموں کو خوبصورت کہہ سکتی ہوں کہ جن سے چیخ بھی ایک مدت کے بعد نکلتی ہے اور ہر چہرے پہ وحشت چمک رہی ہے۔
گھبرا کے میں نے احمد جاوید کی کتاب ’’رات کی رانی‘‘ ہاتھ میں لی۔ احمد جاوید بہت زمانے سے یعنی میری عمر کے زمانے سے کہانیاں لکھ رہے ہیں۔ پہلے صفحے سے آخری صفحے یعنی پہلی کہانی سے آخری کہانی تک وہ عورت کے ساتھ ہونے والے سلوک کو کرداروں کی شکل میں اور کہانی کے روپ میں بیان کرتے ہیں۔ وہ افسانے میں عورت کو بطور کموڈیٹی استعمال کرنے کی جزئیات کو بھی بیان کرتے ہیں۔ میں کتاب پڑھتی جاتی تھی اور نائیجریا میں لڑکیوں کو اغوا کرکے، باندی بناکر رکھنے اور پھر بیچ دینے کے واقعات میری آنکھوں کے سامنے گھوم گئے۔ اس وقت نائیجریا میں ہونے والے واقعات پر بہت بحث اور وہاں کی حکومت پر لعن طعن کی جارہی ہے۔ احمد جاوید کے کردار بھی واقعات کے تجزیاتی عمل کے ساتھ ہمارے سامنے آتے ہیں۔ معاشرے کے دہرے معیار کو ہم کب تک یونہی پیش کرکے، خود پریشان ہوتے رہیں گے۔ میرا جی کیا کہ کسی اور رخ پہ کتاب پڑھوں۔
عجب عالم ہے کہ سامنے ڈاکٹر مزمل کی کتاب ’’علامہ اقبال اور لیہ‘‘ آگئی۔ پہلے تو میں کتاب کا عنوان دیکھ کر حیران ہوئی کہ اب تک پروفیسر نذیر نیازی سے ڈاکٹر جاوید اقبال تک کوئی ایسا تذکرہ کوئی ایسا نکتہ ہی نہیں نکلا یہ مجھے معلوم تھا کہ ڈاکٹر مزمل لیہ کے ایک قصبے میں پرنسپل ہیں۔ یہ بھی معلوم تھا کہ پڑھنے لکھنے کا بہت شغف رکھتے ہیں مگر علامہ اقبال لیہ کیسے پہنچ گئے۔ یہ کرید ایسی تھی کہ میں فوراً کتاب پڑھنے بیٹھ گئی۔ باقی باب چھوڑتے ہوئے۔ علامہ اقبال اور لیہ والے باب پر نظر ٹھہر گئی۔ ارے یہ تو بہت پرلطف مضمون ہے۔ پہلے تو آیا ہے کہ علامہ اقبال اور لیہ پر ایک نظر کے عنوان سے ان لوگوں کے نظریات شامل کئے گئے ہیں جو لیہ میں مقیم ہیں۔ یہ سب دانشور ہیں اس میں ڈاکٹر خیال امروہوی بھی شامل ہیں۔ خلاصہ یہ کہ دانشوروں کا خیال ہے کہ فی الوقت فکری انتشار اور معاشرے میں رجعت پسندی کے ساتھ انتہا پسندی اور دہشت گردی، علامہ اقبال کی فکر سے متضاد ہے۔ علامہ متوقع ہے کہ معاشرے میں ایک نئے آدمی کی ولادت ہو جو محبت کا حامل ہو اور منافقت سے دور ہو۔ کسی کو شہروں میں معلوم بھی نہیں کہ لیہ کے شاعروں نے علامہ اقبال کے کلام کے منظوم تراجم بھی کئے ہیں۔ یہ تراجم سرائیکی میں کئے گئے ہیں۔ ڈاکٹر مہر عبدالحق کو تو پورا پاکستان جانتا ہے انہوں نے تراجم کرتے ہوئے، علامہ کے اسلوب کو مدنظر رکھا ہے۔ علاوہ ازیں نسیم لیہ نے بھی سرائیکی ہی میں علامہ اقبال کے خوبصورت تراجم کئے ہیں۔ ڈاکٹر مزمل کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے ان مذاکروں اور تراجم کو کتابی شکل میں مرتب کیا ہے۔ جب سرائیکی زبان کا ذکر آگیا تو پنجابی پہ بھی بات ہو جائے۔ فصیح الدین طور صاحب، پیشے کے لحاظ سے انجینئر ہیں اور پیکیجز میں کام کرتے رہے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد، کچھ لوگوں کو فیض صاحب کا کلام انگریزی میں کرنے کا شوق چڑھتا ہے۔ تو سرکاری افسروں کو اپنے زمانے کی تاریخی اغلاط یاد آتی ہیں۔ یہی حال فوجی افسران کا ہے۔ وہ خود کو بری الذمہ کرکے، واقعات تحریر کردیتے ہیں مگر طور صاحب نے انوکھا کام کیا ہے۔ انہوں نے پنجابی میں عام استعمال ہونے والے محاوروں اور ضرب المثال کو مجتمع کیا پھر ان کی وضاحت کی، ساتھ ہی ان کا یہ حوالہ بھی دیا کہ منفی معنوں میں کہاں اور مثبت معنوں میں کہاں کہاں استعمال ہوتی ہیں۔ کتاب پڑھ کر اور اس کی مثالیں دیکھ کر اندازہ ہوا کہ بہت سی تمثال اردو اور پنجابی میں یکساں ہیں۔مثلاً ’’گڈوڑے تلیاں کی لبھدا‘‘۔ یہ اس طرح ہے کہ ’’پانی رڑ کے کچھ نئی لبدا‘‘ اور جیسے ’’تھکاں نال پکوڑے تلنا‘‘۔ اس طرح ’’گونگے کی ماں، گونگے کی بات سمجھتی ہے‘‘۔ طور صاحب نے لکھا ’’گونگے دی بولی، اوھدی ماں ہی سمجھدی اے‘‘۔
اشفاق بخاری، فیصل آباد کے مشہور محقق تھے۔ بہت جلد زندگی سے روٹھ گئے۔ بہت کنفیوژن تھی، فیض صاحب کے والد کے بارے میں کہ سلطان عمر خاں، آخر حکومت افغانستان کے بہت قریبی عہدے پر فائز رہنے کے بعد واپس ہندوستان کیوں اور کیسے آئے اور وہ دن کیسے خراب ہوئے کہ ان کی زندگی میں اتنی عسرت تھی کہ فیض صاحب نے ایم اے عربی میں داخلہ، اس لئے لیا کہ انگریزی ایم اے کے داخلے کی فیس کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔ اشفاق بخاری نے ڈاکٹر للن کی کتاب جس میں ہزارہ قبائل اور افغان قبائل کے درمیان جنگ کو جس طرح لکھا ہے۔
کمال مہارت سے اشفاق بخاری نے اس کو’’دختر وزیر‘‘کے نام سے ترجمہ کیا ہے۔ گل بیگم کا کردار توانا ہے کہ آج کی ہزارہ عورت اگر ایسے ہی نظر آئے تو طالبان کو ان کو فنا کرنے کا کوئی موقع نہ ملے۔ مگر آج کی ہزارہ عورت اس دن سے ڈری ہوئی ہے۔ جس دن یونیورسٹی کی بس پر بچیاں، بم سے اڑا دی گئی تھیں حوصلہ رکھو میری بچیوں! یہ لوگ آپس میں لڑ لڑ کر ہی فنا ہوجائیں گے کہ ظلم کی دیوار بہت دن تک کھڑی نہیں رہ سکتی ہے۔