تبدیلی کا نعرہ اور سابق کھلاڑی

July 30, 2016

وطن عزیز کی سیاست میں ایک سابق کھلاڑی عرصہ دراز سے تبدیلی کا نعرے لگارہے ہیں ہمارے بہت سے نوجوان دوست حیران وپریشان ہیں کہ ان کھلاڑی صاحب کی اتنی زیادہ اٹھک بیٹھک کے باوجود انہیں ہنوز کامیابی حاصل نہیں ہو سکی تو اس کی وجہ کیاہے ؟کیا عوام بے شعورہیں یا سابق کھلاڑی کے اپنے ذہین میں کچھ الجھنیں ہیں ؟ سابق کھلاڑی کے نوجوان حماتیوں کو دکھ ہے کہ عوام ان کے جلسوں اور دھرنوں میں تو پھر بھی رونق بڑھانے آجاتے ہیں لیکن جو اصل چیز ہے یعنی اپنے ووٹ کی طاقت سے اظہار اعتماد کرنا سابق کھلاڑی صاحب اس کے لئے تڑپ رہے ہیں لیکن عوام ہیں کہ اس حوالے سے ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ۔بلدیاتی انتخابات میں کھلاڑی اور اس کے ساتھی چیختے رہے مگر عوام نے کوئی خاص توجہ نہیں دی اب تک جتنے بھی ضمنی انتخابات ہوئے ہیں ان کا تجزیہ کیا جائے تو انتخابی نتائج کی تفصیلات پر یہی کیا جا سکتا ہے کہ آپ بھی شرمسار ہو ہم کو بھی شرمسار کر ۔باقی سب چھوڑیں ابھی آزاد کشمیر میں کتنے انقلابی نعرے لگائے گئے تھے کتنے جتن کیے تھے مگر نتیجہ ندارد۔
تجزیہ نگاری کرتے ہوئے اس کی درجن بھر وجوہ بیان کی جا سکتی ہیں لیکن ہم یہاں محض ایک وجہ پر فوکس کرتے ہیں اور وہ ہے’’ تبدیلی کا نعرہ ‘‘ جو فقط نعرہ ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلاشبہ ہمارے بہت سے نوجوانوں کو تبدیلی کے نعرے نے اپنی طرف کھینچا ۔انہیں لگا کہ شایدا سٹیٹس کو کا کلچر بدل جائے گا سماج میں روا رکھی جانے والی بے انصافی انصاف میں بدل جائے گی اور ان کی محرومیوں کا ازالہ ہو سکے گا۔ یہ نعرہ لگانے والا کوئی عام شخص نہیں ایک نامورسابق کھلاڑی ہے جو ایک وقت میں ان کا ہیرو رہ چکا ہے اب ضرور ان کی شنوائی ہوگی یہ شخص تو بڑا بے باک ہے گلے سڑے روایتی نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گا لہذا وہ اپنی آنکھوں میں سہانے سپنے سجائے اس کی چکنی چپڑی باتوں میں آگئے ۔ جلسوں کے اعلانات ہوئے تو وہ جلسوں میں گئے دھرنوں کا بلاوا آیا تو یہ بلند امیدوں کے ساتھ دھرنوں میں بھی خوب خوار ہوتے رہے اس نے اشارہ کیا کہ پارلیمنٹ پر حملہ کر دو تو یہ جو شیلے قانون کو ہاتھوں میں لئے بلکہ پائوں سے مسلتے پارلیمنٹ پر جا دھمکے قومی نشریاتی وا بلاغی اداروں پر حملے کرتے ہوئے بھی انھوں نے کوئی شرمندگی محسوس نہ کی مگر سوائے ذلت اٹھانے کے انہیں حاصل کچھ نہ ہوا۔ ان میں پھیلتی بددلی سے گھبرا کر سابق کھلاڑی اپنے اندر کی یہ بات تک کہہ بیٹھاکہ میرے نوجوانو پریشان اور مایوس نہ ہو بس ایمپائر کی انگلی اٹھنے ہی والی ہے۔
آج ہم اپنے انہی جذباتی نوجوانوں کے سامنے تبدیلی کے حوالے سے کچھ حقائق رکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ صورتحا ل کا بہتر ادراک کر سکیں سب سے پہلے وہ یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ ان کے لیڈر نے تبدیلی کا جو نعرہ لگا رکھا ہے یہ سوائے ڈھکوسلے اور سراب کے اور کچھ نہیں ہم عرض کرتے ہیں کہ کسی بھی فرد کی شخصیت یا کردار کا جائزہ لینے کے لئے لازم ہے کہ اس کی خوبیوں اور خامیوں کو بغیر کسی مثبت یا منفی تعصب کے پرکھا جائے۔ یہ کہ انہوں نے ورلڈ کپ جتوایا اور اسی شہرت کو کام میں لاتے ہوئے اسپتا ل بنوایا لاریب یہ دو بڑے کارنامے ہیںلیکن ہاکی کا ورلڈ کپ تو بیچارے اختر رسول نے بھی جتوایا تھا تو کیا پھر قوم اختر رسول کو بھی وزیراعظم بنائے ؟ یہ بچگانہ سوچ ہے۔ قوم کے لئے جو بھی اس نوع کے کارنامے سرانجام دیتا ہے قوم اسے عزت دیتی ہے لیکن جس شخص میں جس کام کی صلاحیت ہوتی ہے اس سے اسی نوع کا کام لیا جانا چاہیے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں کھلاڑی لوگ یا دوسرے شعبہ جات کے لوگ بڑے بڑے کارنامے سرانجام دیتے ہیں اس کا یہ مطلب تو نہیں ہوتا کہ انہیں سیاست کی امامت بھی سونپ دی جائے چاہے ان میں اس نوع کی صلاحیت ہو یا نہ ہواسپتال بنانا بلاشبہ خدمت کا کام ہے لیکن اس کا یہ مطلب کہاں سے نکلتا ہے کہ وہ شخص کامیاب سیاستدان بھی بن سکتا ہے۔ اگر اس بنیاد پر وہ صاحب وزیراعظم بننے کے دعویدار بن رہے ہیں تو اس کا کہیں زیادہ استحقاق ایدھی صاحب رکھتے تھے جنہوں نے بے مثال اور لازوال سماجی خدمت کی ہے۔
اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے یہ کیسا جمہوری یا سیاسی آدمی ہے جو اپنی پارٹی میں اختلاف کرنے والوں کو نفرت و حقارت سے دیکھتا ہے اور خوشامدیوں کو پسند کرتا ہے۔ سیاست تو تہذیب کا نقاضا کرتی ہے یہ کیسی سیاست ہے جو بد تہذیبی اور لچر پن سکھاتی ہے اس حوالے سے سابق کھلاڑی کی تمام تقاریر بطور حوالہ ملا حظہ کی جا سکتی ہیں جب لیڈر اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف اس نوع کی تھرڈ کلاس زبان استعمال کرے گا تو پھر اس کے پیروکار یا کارکنان جو دھینگامشتی کریں گے ان کی وڈیوز بھی قابلِ ملاحظہ ہیں۔انسان کی زندگی کا کوئی مشن ہوتا ہے کوئی داعیہ کوئی مقصد ہوتا ہے یہ کونسی فکری بلندی ہے کہ ایک شخص اٹھتے بیٹھتے ہلکان ہو رہا ہو ہائے مجھے وزیراعظم بنا دو ۔ اس طرح تو بندہ مذاق بن جا تا ہے انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔ اس کے لئے آپ ڈکٹیٹروں کی خاک بھی چھانتے رہے کون سی بے اصولی ہے جو نہیں کی لیکن حاصل ؟
اتفاق سے اگر ایک چھوٹے صوبے کی لیڈری مل ہی گئی تھی تو وہاں آپ نے کون سی دودھ اور شہد کی نہریں بہا دی ہیں بھرے جلسے میں عوام نے آپ کو بے عزت کر دیا کہ ہمیں کچھ نہیں ملا تھا نے بدلے ہیں نہ تعلیمی ماحول اور نہ ہی صحت کی سہولتیں ملی ہیں۔ الٹا انتہا پسندی پھیلانے والوں کو نوازا جا رہا ہے 30 کروڑ اس مدرسے کو دئیے گئے ہیں جو شدت پسندون کا حمایتی ہے۔ کیا آپ ہی کی حکومت میں یہ سانحہ نہیں ہوا ہے کہ شدت پسند آپ کی سب سے بڑی جیل توڑ کر سینکڑوں دہشت گردوں اور قاتلوں کو چھڑا لے گئے اور آپ کی حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی آپ کس تبدیلی کے علمبردار ہیں؟ ۔ آج آپ طمطراق سے تقاریر کرتے پھر رہے ہیں کہ پاکستان میں اگر فوج نے آئین شکنی کی تو پاکستانی عوام مٹھائیاں بانٹیں گے ۔ یہ آپ پاکستانی عوام کی عزت افزائی کر رہے ہیں یا فوج کی؟ اگر یہی آپ کی نام نہاد ’’ تبدیلی ‘‘ ہے تو پاکستانی عوام ما قبل چار مرتبہ اس کے مہلک نتائج بھگت چکے ہیں۔


.