بجلی کے تاروں سے ہلاکتیں

July 31, 2016

ملک کے بڑے شہروں کے گنجان آباد علاقوں میں بجلی کی بے ہنگم تاروں سے آتشزدگی کے واقعات بھی اکثر ہوتے رہتے ہیں اور برسات کے ایام میں کھمبوں میں کرنٹ آ جانے اور تاروں کے ٹوٹ جانے سے کئی جان لیوا حادثات بھی آئے دن کا معمول بنتے جا رہے ہیں یہ صورتحال یقیناً بہت تشویش انگیز ہے لیکن اب ان دونوں مسائل سے ایک اوربڑا مسئلہ یہ سامنے آیا ہے کہ شہروں میں بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر لوگوں نے اپنے مکانوں کی چھتوں اور ان کے اردگرد بنائے گئے چبوتروں اورشیڈوں کو سینکڑوں جگہوں پر اتنا زیادہ آگے بڑھا لیا ہے کہ وہ ہائی وولٹیج تاروں کے اتنا قریب آ گئے ہیں جہاں ذرا سی بے احتیاطی ان مکانوں کے باسیوں کے لئے موت کا پیغام بن سکتی ہے پچھلے ہفتے لاہور کے علاقے نشتر کالونی میں ہائی وولٹیج تاروں کے بارش کے پانی میں گرنے سے ایک نوجوان خاتون اور ایک 45 سالہ بزرگ جاں بحق ہو گئے تھے جس کا وزیراعظم نواز شریف نے خود نوٹس لیتے ہوئے غفلت کا ارتکاب کرنے والے اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تھا لیکن ابھی اس صدمہ جانکاء کی گونج بھی فضا میں ختم نہیں ہوئی کہ فیروز والہ ونڈیالہ دیال شاہ میں ہائی وولٹیج تاروں کے گرنے سے ایک ہی خاندان کے تین افراد جن میں باپ بیٹا اور بیٹی شامل ہیں لقمہ اجل بن گئے ہیں یہ صورتحال صرف لاہور تک محدود نہیں بلکہ کراچی راولپنڈی فیصل آباد اور ملتان ایسے شہروں میں آبادیوں کے بے سمت پھیلائو اور تعمیرات پر نظر رکھنے والے اداروں کے اہلکاروں کی بے توجہی نے ان مسائل کو بے حد گمبھیر بنا دیا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس حوالے سے تمام بڑے شہروں میں جنم لینے والی نئی آبادیوں کا بھرپور سروے کیا جائے اور ایسے تمام عمارتوں کو کسی دوسری جگہ منتقل کیا جائے جو مکینوں کے لئے خطرہ بن سکتی ہیں تاہم اس کے ساتھ ساتھ بجلی فراہم کرنے والے اداروں کا بھی فرض ہے کہ وہ ہر جگہ کھمبوں کے ساتھ بجلی کے تاروں کے الجھائو کو ختم کریں تاکہ وہ انسانی جانوں کے لئے خطرہ نہ بنیں۔