بینظیر بھٹو سے طاہر القادری تک

June 25, 2014

16اور17جون کی درمیانی رات نے پنجاب میں شریف خاندان کے اقتدار کو پہلی بار حقیقی آزمائش یا بحران کےجان لیواجبڑوں میں کس دیا ہے۔ 16اور17جون کی درمیانی رات، تقریباً دو بجے کے قریب جنم لینے والے اس بحران نے 17جون کی شام تک 9کے قریب عام پاکستانیوں کے خون سے غسل کیا۔ ادارہ منہاج القرآن کے ماڈل ٹائون سیکرٹریٹ کے درودیواران خاک نشینوں کی لہو رنگ داستان لکھ چکے۔وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو ان کے جاہ و جلال پرامنڈ آنےوالے سیاہ بادلوں کی اوٹ میں یکے بعد دیگرے تین ہنگامی پریس کانفرنس کے باوجود، ان اندھیروں میں سے امید کی کوئی کرن دکھائی نہ دی۔ صوبائی وزیر قانون رانا ثنااللہ کے استعفیٰ اور اپنے پرنسپل سیکرٹری توقیر شاہ کو فارغ کردینےکے بعد بھی ان پر سائے منڈلا رہےہیں۔
23جون 2014کو پاکستان میں ڈاکٹر طاہر القادری کی آمد، ان کے طیارے کا رخ لاہور کی جانب موڑے جانے، طیارے سےاترنے سے شاید پندرہ بیس منٹ یا آدھا گھنٹہ پہلے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کے فون، گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کے لاہور ایئرپورٹ پر ان سے مذاکرات جیسے واقعات کے دائروں میں متعدد ایسے سوالات فضا میں گردشی بگولوں کی مانند چلنے لگے جس سے موجودہ حکمرانوں کے مزید کسی غارت گرانہ منصوبے کی کہانی زبانوں پرزدعام ہوتی رہی۔ ڈاکٹرصاحب نے طیارہ چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا۔ انسانی خونریزی کے دلدوز المیے میں اس فوٹیج نے ناقابل تلافی نقصان کردیا جس میں ’’یاللہ میرا پردہ، یا اللہ میرا پردہ‘‘ اور ’’انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘ کی ایسے منتشر، بے بس اور کانپتے لہجے میں کسی بزرگ اور چند خواتین کی ملی جلی آوازیں آرہی ہیں جیسے وہ کسی ناقابل تصور اخلاقی باختگی کی جبریت کے خوف میں خالق کائنات سے پناہ اور حفاظت کی دعائوں سے لرزاں و ترساں لفظوں میں ڈھل رہی ہوں۔
پنجاب حکومت کی طرف سے سانحہ ماڈل ٹائون کے سلسلے میں اٹھائے گئے اقدامات کے متعلق دلائل یا معذرت کے انداز میں جو کچھ کہا گیا، اس حوالےسے ان سطور کے تحریر ہونے تک جواباً بہت کچھ کہا جا چکا ہے مگر مجھے محض ایک ناگزیر اضافہ کرناہے۔ قومی جدوجہد کے مختلف مراحل اور آزمائشوں میں متعدد بار اپنی قربانیوں اور شہادتوں کی تاریخ کے باوجود، پنجاب پولیس کی تاریخ پاپ کا ایک گھڑا ہے۔ پاپ کے اس گھڑے کو اب اس کے کناروں تک بھر دیاگیا ہے۔ یہ کس کی ٹھوکر سے اور کب گرایا جاتاہے لیکن اب اس کا ریزہ ریزہ ہونا لازمی ہے۔ خواہ وہ ٹھوکر ڈاکٹر طاہرالقادری کی ہو اور صدا بھی ڈاکٹر طاہر القادری نے ہی لگائی ہو، جیسا کہ وہ لگائے جارہے ہیں!
80 کی دہائی شروع ہونے کے دو تین برس بعد شریف خاندان نے میاں نوازشریف کے بطور صوبائی وزیرخزانہ حلف اٹھانے کی صورت میں ایوان اقتدار کی دہلیز پر قدم رکھے تھے۔اب ان کے اس عہد حکمرانی کی مدت کو چونتیس برس سے زائد ہونے کو ہیں۔ بڑے بھائی نوازشریف تیسری بار ملک کے وزیراعظم اور چھوٹے بھائی شہبازشریف تیسری بار پنجاب کے وزیراعلیٰ ہیں مگر پنجاب اور وفاق میں چونتیس برس سے زائد حکمرانی کی اس تاریخ نے پاکستان اور صوبے کو کس ترقی اور کس کردار سے بہرہ ور کیا۔ سانحہ ماڈل ٹائون کی شکل میں 16اور 17جون 2014کی درمیانی رات نے شریف خاندان کے اس عہد حکمرانی کو تاریخ کے کس قطعی نئے چہرے سے روشناس کرایا۔ یہ موضوعات موجودہ لمحے کا تقاضا ہیں، ایسا تقاضا جس سے وقت شریف خاندان کو نہ آنکھ چرانے اور نہ اعراض کرنے کی رتی بھر گنجائش بھی فراہم کرنے کو تیار ہے!
پاکستان پر چونتیس برس سے زائد کی اس حکمرانی کے دورانئے میں میاں نواز شریف نے سیاسی اصول پسندی، آئین کی بالادستی، ریاستی اداروں کی حاکمیت، ملک کی خاکی اور غیرخاکی ہیت مقتدرہ (اسٹیبلشمنٹ) کے ساتھ بطور سیاستدان اور بطور حکمران کس کردار کامظاہرہ کیا۔ یہ موضوع ایک کالم کا نہیں ایک کتاب کا مستحق ہے۔ جامع ترین اظہار شاید محض اس کتاب کے مجموعی مواد کی نوعیت سے آگاہی کی خاطر ، یہ ہوسکتا ہے کہ وہ اس شخص ضیاالحق کی سب سے بڑی علامت اور جانشین کےطور پر سامنے آئے جس نے کہا تھا ’’آئین پاکستان بارہ صفحے کی ایک دستاویز ہے جسے جب چاہوں پھاڑ کر پھینک دوں‘‘ اور یہ کہ ’’سیاستدان کتوں کی طرح دم ہلاتے ہوئے میرے پیچھے آئیں گے‘‘ ضیاالحق نے پاکستان کےآئین اور قومی جمہوریت کے ساتھ پاکستان کی اب تک کی کل عمرمیں کھیلے جانے والے تباہ کن قومی کھیلوں میں سب سے زیادہ بھیانک کھیل کھیلا۔ نوازشریف اس ضیا الحق کے فیصلہ کن سیاسی جانشین ہی نہیں تھے بلکہ ضیا صاحب کی ہلاکت کے بعد وہ پاکستان کی خاکی اورغیرخاکی اسٹیبلشمنٹ کے ایک طے شدہ سیاسی متبادل کے طور پر برسرکار رکھے گئے۔ لیکن وہی نوازشریف 2014، برسرعام اپنے سارے کردار اورسارے عہد کےباوجود 2007کے بارے میں قوم کو آئین کے ایک ’’غدار‘‘کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ ان کے حامی تمام دانشور اور عوام اس ’’غدار‘‘ کے انجام کا انتظارکر رہے ہیں۔ نوازشریف کا 1988سے لے کر 2014 تک کا سارا سیاسی کردار ان کی ’’آئینی حریت پسندی اور تقدیس‘‘ کا شاہی مینارہ بن جاتا ہے، 1990 کے قومی انتخابات کے تناظر میں اصغرخان کی رٹ 1990، 1997 اور 2014 تینوں قومی انتخابات میں بطور اکثریتی لیڈر کے منتخب ہونے کامتنازع ہونا، سب کچھ معلوم نہیں کس تاریک کنویں میں ڈوب جاتا ہے تاآنکہ تیسری بار کی اس باری میں عمران خان ان کے ’’مشکوک انتخاب‘‘ کی سرنگ میں ایک بارودی مواد کی طرح داخل ہوچکا ہے۔ ہر گزرتا دن اورطلوع ہوتا سورج اس سرنگ کے پھٹنے کا منتظر ہے۔ کیا طاہر القادری مکافات ِ عمل ہے یا عمران؟ شایدہم اس سوال کا زیادہ ممکنہ جواب جون 2014کے اختتام تک حاصل کرسکیں۔
تاریخ کا یہی وہ قطعی نیا چہرہ ہے جس سے شریف خاندان کے عہد حکمرانی کو پہلی بار واسطہ پڑ رہا ہے جبکہ پہلی ہی بار میاں نواز شریف اور ان کی جماعت کوقومی میڈیا نے بلاکسی خوف اور تحفظات کے ایکسپوز کیا۔ سانحہ ماڈل ٹائون لاہور کےواقعات کی بھرپور کوریج کے اثرات اور نتائج نے میاں برادران کو اس قومی میڈیا کے سامنے اُس بے بسی سے پہلی ہی بار متعارف کرایا جس بے بسی میں پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت کا جنم ہوا، جوانیاں گزریں اور وہ شہادتوں سےسرفراز ہوئے!
21جون بینظیر بھٹو شہید کایوم پیدائش ہے۔ امت مسلمہ کی اس عظیم خاتون کےساتھ میاں نوازشریف اور ان کے حامی دائیں بازو کے قلمکاروں اور عوام نے میڈیا کے محاذوںاور عوامی جلسوں کے میدانوں میں جس ناقابل ذکر سلوک اور رویئے کی داستان مرتب کی اسے دہرانا کم از کم کسی شریف الطبع ذہن کے لئے کوئی آسان کام نہیں ہوسکتا۔ آصف علی زرداری کے صدر بن جانے کے بعد ’’ن‘‘ لیگ ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ کے طور پر اسٹیبلش کی گئی مگر آصف علی زرداری کا ان پانچ برسوں میں ایک دن بھی ایسا نہیں جس میں فرینڈلی اپوزیشن نے چاروں جانب سے اڑ اڑ کر اسے ڈسنے اور گرانے کی سرتوڑ کوششیں نہ کیں مگر Posture جمہوریت کے محافظ اور فرینڈلی اپوزیشن کا رہا۔ بہرحال یہ ایک اوربے رحم شاطرپنےکی کہانی ہے جس کا ہر لفظ ضیا کے جانشینوں اور حامیوں نے لکھا۔ یہی قومی میڈیا ان کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔ آج وہی میڈیا ہے اور شریف برادران؟ کیا یہ بھی مکافات ِ عمل ہے؟ اس کے جواب میں بھی وہی اندازہ ہے غالباً جون 2014کے آخر تک ہم زیادہ ممکنہ اندازہ لگا سکیں گے۔
سانحہ ماڈل ٹائون لاہور میں شہادتوں کی تعداد 14سے بھی بڑھ گئی، یقین کی حد تک یہ صحیح ہے۔ زخمیوں کا کوئی حال نہیں۔ بہت سے افراد ابھی تک لاپتہ ہیں۔ یہ سب اپنی جگہ اور ڈاکٹر طاہر القادری کالاہور ایئرپورٹ سے منہاج القرآن سیکرٹریٹ پہنچ کر خطاب اپنی جگہ۔ کیا شریف برادران نے اپنے چونتیس برسوں میں ایسے الفاظ سنے تھے؟ آصف علی زرداری پاکستان کے صدر کے منصب جلیلہ پر فائز ہوئے، شہبازشریف تو رہے ایک طرف بچے بھی صدر کے لئے ’’علی بابا چالیس چور‘‘ اور ’’گلیوں میں گھسیٹیں گے‘‘ کے آوارہ الفاظ استعمال میں لائے۔ کیا آج ان بچوں کو پتہ ہے ایک صدائے بے باک ان کے بزرگوں کو کن خطابات سے بلا رہی ہے؟کیا یہ بھی مکافات ِ عمل نہیں؟