ساس بہو کا جھگڑا

July 14, 2014

گزشتہ دورحکومت میں جب رحمٰن ملک وزیر داخلہ کا منصب سنبھالے ہوئے تھے تو سب کا یہی گمان تھا کہ وہ اس حکومت کے سب سے طاقتور اور با اختیار شخص ہیں لہٰذا یہ تو ہو سکتا ہے کہ سورج مشرق کے بجائے مغرب سے نکل آئے لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ ان سے وزارت داخلہ کا قلمدان واپس لے لیا جائے۔ان کا سب سے نمایاں وصف یہ تھا کہ وہ اپنے طرحدار بیانات سے محفل کو کشت زعفران بنائے رکھتے تھے۔مثال کے طور پر کسی صحافی نے کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کی بڑھتی ہوئی وارداتوں سے متعلق سوال کیا توانہوں نے نہایت سنجیدگی اور متانت سے جواب دیا کہ ان وارداتوں میں آدھے سے زیادہ لوگ تو اپنی گرل فرینڈز کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں لیکن آپ سب کو ٹارگٹ کلرز کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔اس طرح کے بیشمار دلچسپ بیانات کے باعث وہ گزشتہ دور حکومت کے سب سے جانے پہچانے وزیر تھے۔خدا جانے یہ محض اتفاق ہے یا حسن اتفاق کہ ان کے جانشین چوہدری نثار بھی انہی خصوصیات کی بناء پر زبان زد عام ہیں جو رحمٰن ملک کا طرہ امتیاز سمجھی جاتی تھیں ۔مثال کے طور پر جب میاں نواز شریف اور ان کے مابین ناراضی کی افواہیں زیر گردش تھیں تو مجھے پورا یقین تھا کہ یہ ’’ساس،بہو‘‘ کی لڑائی ہے اور میاں صاحب تجربہ کار اور منجھی ہوئی ساس کی طرح اپنی روٹھی ہوئی بہو کو منا لیں گے۔کیونکہ یہ روٹھنا منانابہت پرانا ہے۔جب چوہدری نثار پیٹرولیم کے وفاقی وزیر تھے تو ان کے مشورے پر ہی عساکر پاکستان کے سربراہ کی چھٹی کروا کے جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف لگایا گیا۔پرویز مشرف کی بغاوت کے بعد نواز شریف اور ان کے وفادار ساتھی ابتلاء و آزمائش کے دور سے گزر رہے تھے تو چوہدری نثار کو تمام سہولتوں اور آسائشوں کے ساتھ محض گھر پر نظر بند کیا گیا اور وہ بھی اس طرح کہ ان کی نقل و حرکت پر کوئی قدغن نہ تھی۔جب کلثوم نواز اور دیگر ذرائع سے میاں صاحب کو یہ اطلاعات ملیں تووہ بددل ہو گئے۔قصہ مختصر شریف خاندان کو جلاوطن کر دیا گیا اور جاوید ہاشمی جیسے باحوصلہ شخص نے قیادت کا فریضہ سرانجام دیتے ہوئے بچے کچھے کارکنوں کو منظم کیا اور آمریت کے خلاف ڈٹ گیا۔جب نواز شریف چوہدری نثار سے متعلق کوئی بات سننے کو تیار نہ تھے تب بھی شہباز شریف نے دوستی کا حق ادا کیا اور انہیں سعودی عرب بلوا کر صلح کرا دی۔اگر ہماری قوم کی یادداشت زیادہ کمزور نہیں تو اسے یاد ہو گاکہ گلے شکوے دور ہونے کے بعد بھی چوہدری نثار متحرک اور فعال نہ ہوئے۔جب جاوید ہاشمی کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج ہوا تو میں نے ایک معاصر قومی اخبار میں ’’عہد حاضر کا سقراط‘‘ کے عنوان سے کالم لکھا جس میں جاوید ہاشمی کی عظمت کو سلام پیش کرتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا کہ جب نواز شریف واپس آئیں گے اور تخت اور بخت کا دور پلٹے گا تو قربانیاں دینے والے مخلص کارکن پس منظر میں چلے جائیں گے اور چوری کھانے والے مجنوں آگے ہونگے۔اور وہی ہوا،امین فہیم کو تو پیپلز پارٹی نے اس لئے قابل اعتبار نہ سمجھا کہ انہوں نے ایک بار پرویز مشرف سے خفیہ ملاقات کی تھی مگر مسلم لیگ (ن) نے اس جرم کا بار بار ارتکاب کرنے والے چوہدری نثار کو پہلے پارلیمانی لیڈر بنایا،پھر قائد حزب اختلاف اور پھر چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی کا عہدہ بھی پکے ہوئے پھل کی مانند ان کی جھولی میں آگرا۔بہر طور بات ہو رہی تھی چوہدری نثار کے روٹھنے کی ۔اس نخریلی ’’بہو‘‘ کے دوسری بار روٹھنے کی وجہ یہ تھی کہ جب ملک ریاض کے ساتھ ان کا جھگڑا ہوا تو بقول ان کے میاں نواز شریف نے خاموشی اختیار کیے رکھی اور اس لڑائی میں ان کا ساتھ نہیں دیا۔چوہدری نثار ناراض ہو کر گھر بیٹھے تھے ،فاصلے بڑھتے جا رہے تھے کہ ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا،میاں نواز شریف تعزیت کے لئے ان کے گھر چل کر گئے،گلے شکوے ہوئے اور ایک بار پھر جپھی ڈال کر واپس آگئے۔
جب تیسری بار چوہدری نثار کے روٹھنے کی خبریں گردش کر رہی تھیں تو مجھے یہ غم کھائے جا رہا تھا کہ اگر رانا ثناء اللہ کے بعد چوہدری نثار بھی پس منظر میں چلے گئے تو ٹریجڈی میں الجھی قوم کو کامیڈی کون سنائے گا اور محفلوں کو کشت زعفران کون بنائے گا۔ہو سکتا ہے آپ میں سے کچھ چارلی چپلن کے فین ہوں ،بعض مسٹر بین کو پسند کرتے ہوں ،کچھ کو جانی واکر اور قادر خان کے چٹکلے بھاتے ہوں ،کسی کا دل منور ظریف لُبھاتے ہوں،کوئی رنگیلا کا مداح ہو ،کوئی لہری کا پرستار ہو مگر سچ پوچھئے تو میرے فیورٹ چوہدری نثار ہیں جن کا ہرجملہ مسکراہٹیں بکھیر دیتا ہے۔ایک دن انہوں نے فرمایا ،اسلام آباد کی سکیورٹی فول پروف ہے،یہاں کوئی پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا۔چند روز بعد کچہری میں دھماکہ ہو گیا اور طالبان نے ذمہ داری قبول نہ کی تو نہایت خود اعتمادی سے کہا،طالبان اس حملے کی تحقیقات میں تعاون کریں اور بتائیں کہ یہ دھماکہ کس نے کیا۔ایڈیشنل سیشن جج رفاقت حسین سے متعلق ان کا یہ بیان تو سب کو یاد ہو گا کہ وہ اپنے محافظ کی گولی لگنے سے جاں بحق ہوئے۔ایک دن انہوں نے گوہر افشانی کی کہ طالبان ملک دشمن نہیں حکومت دشمن ہیں۔جب قوم سخت تنائو کی کیفیت میں تھی اور طالبان سے مذاکرات آگے نہیں بڑھ رہے تھے تو انہوں نے پوری سنجیدگی سے طالبان کو کرکٹ میچ کھیلنے کی دعوت دے ڈالی۔خواجہ آصف لوڈ شیڈنگ کے باعث قوم کے سامنے نہیں آتے،اسحٰق ڈار مہنگائی کی وجہ سے منہ چھپاتے ہیں ،وزیر خارجہ کوئی ایک ہو تو لوگ یاد رکھیں ،ایسے میں خم ٹھونک کر میدان میں آنے اور محفل لگانے کو چوہدری نثار ہی تو رہ جاتے ہیں۔اس لیےشہباز شریف نے اچھا کیا کہ ایک بار پھر گلے شکوے دور کرا دیئے اور ’’ساس ،بہو‘‘ کی صلح کروا دی۔لیکن نہ جانے کیوں میاں نواز شریف اس نخریلی ’’بہو‘‘ سے اب بھی محتاط ہیں ۔
تا حال یہ معلوم نہیں کہ حالیہ ناراضی کی وجوہات کیا تھیں لیکن مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ چوہدری نثار کس کڑے وقت میں روٹھ کر گھر بیٹھ گئے ۔اگر یہ ساس بہو کی لڑائی تھی ،اختیارات کا تنازع تھاتو اسے کسی اور وقت کے لئے ملتوی کیا جا سکتا تھا۔کوئی بہو کتنی ہی لڑاکا کیوں نہ ہو میں نے آج تک یہ نہیں سنا کہ کسی گھر کو آگ لگی ہو اور بہو رانی سب کے ساتھ مل کر آگ بجھانے یا قیمتی سامان بچانے کے بجائے یہ کہتے ہوئے روٹھ جائے کہ چونکہ مجھے آتشزدگی سے گھر بچانے کی حکمت عملی پر اعتماد میں نہیں لیا گیا لہٰذا میں روٹھ کر جا رہی ہوں۔ہماری تاریخ لکھنے والا مورخ بھی یقینا یہ سوچ کرحیرت زدہ رہ جائے گا کہ جب ملک جل رہا تھا تو وزیر اعظم اور وزیر داخلہ میں ساس بہو کا جھگڑا چل رہا تھا۔مجھے اس بات پر تعجب ہے کہ جب وزیرستان میں آپریشن کا فیصلہ کیا گیا تو ہمارے وزیر داخلہ ناراض بچوں کی طرح منہ بسور کر گھر بیٹھے تھے۔کم و بیش ایک ماہ تک ہمارے جان و مال کا تحفظ کرنے والا شخص لاتعلق تھا تو داخلی سکیورٹی کے معاملات کیسے چل رہے تھے؟ اور ایک آخری سوال کہ اگر یہ وزارت ایک ماہ کسی سربراہ کے بغیر چل سکتی ہے تو مستقل کیوں نہیں؟