وزیر اعلیٰ سندھ کا پہلا سیاسی چھکا

August 12, 2016

پچھلے کالم میں، میں نے سندھ کے نئے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کا ذکر کرتے ہوئےامید ظاہر کی تھی کہ وہ سندھ کو مایوس نہیں کریں گے، میرا یہ کالم گزشتہ جمعہ کو شائع ہوا تھا، دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی دن انہوں نے اسلام آباد میں وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کی اور سندھ کے حوالے سے 22مطالبات پیش کئے، وزیر اعلیٰ کی طرف سے سندھ کے بارے میں اس زوردار موقف کو میں ان کا پہلا سیاسی چھکا قرار دینے پر مجبور ہوں، امید ہے کہ آئندہ بھی وہ سندھ کے ایشوز پر بات کرتے وقت اسی طرح فارورڈ کھیلیں گے، پیچھے ہٹ کر نہیں کھیلیں گے، وزیر اعظم سے ملاقات کے دوران مراد علی شاہ نے جو مطالبات رکھے ہیںاس میں ایک اہم مطالبہ یہ ہےکہ صوبوں کے لئے نیا مالیاتی ایوارڈ لایا جائے، اس موضوع پر کچھ دن پہلے سینیٹ کے چیئرمین میاں رضا ربانی نے ایک بیان میں اس بات پر افسوس ظاہر کیا تھا کہ چھوٹے صوبے آئین کی اس خلاف ورزی پر خاموش ہیں اور مل کر آئین کے تحت کارروائی نہیں کررہے ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ سید مراد علی شاہ فقط پریس کانفرنس کے دوران یہ بات کہہ کر خاموش نہیں ہوجائیں گے بلکہ دوسرے صوبوں کے ساتھ مل کر سی سی آئی کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے، اس سلسلے میں، میں ان کو ان کے والد سید عبداللہ شاہ کی روایت یاد دلائوں گا کہ وہ ایسے ایشوز پر کے پی اور بلوچستان یا خاص طور پر بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کے ساتھ ملاقاتیں کرکے مشترکہ حکمت عملی بناتے تھے، ایک اچھی بات یہ ہے کہ گزشتہ دنوں کے پی کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کراچی آئے تھے اور یہاںقائم علی شاہ سے ملاقات کے بعد دونوں نے ان ایشوز پر مشترکہ پریس کانفرنس کی تھی جن لوگوں نے یہ پریس کانفرنس دیکھی ہوگی وہ گواہی دیں گے کہ قائم علی شاہ کا موقف نرم جبکہ پرویز خٹک کا موقف کافی سخت تھا، ایسے دیگر ایشوز پر کم سے کم کے پی کے وزیر اعلیٰ کے ساتھ ملاقات کرکے سید مراد علی شاہ مشترکہ حکمت عملی تیار کریں اور پھر مشترکہ اقدامات اٹھائیں، مراد علی شاہ نے پریس کانفرنس میں ایک دلچسپ بات کی کہ ’’وہ آصف زرداری کا پیغام لیکر نہیں آئے‘‘ اس بات پر سندھ کے کئی لوگوں کو تسکین ہوئی ہوگی، انہوں نے یہ بھی یقین دہانی کرائی کہ وہ ’’سندھ کے مفادات پر سودے بازی نہیں کریں گے‘‘ امید ہے کہ وہ اس یقین دہانی پر قائم رہیں گے اور یہاں یا وہاں سے آنے والے دبائو کو قبول کرنے کے بجائے وزارت اعلیٰ سے مستعفی ہونے کو ترجیح دیں گے، اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو ہمیشہ کے لئے سندھ کے لوگوں کے دلوں میں نقش ہوجائیں گے، مراد علی شاہ نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ سندھ کو وفاقی اداروں میں آئین کے مطابق نمائندگی دی جائے، اس سلسلے میں انہوں نے کے الیکٹرک، پی ایس او، کے پی ٹی اور کئی دیگر وفاقی اداروں کے بورڈز میں سندھ کی نمائندگی نہ ہونے کا ذکر کیا، انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ سندھ میں بند ریلوے اسٹاپ بحال کئے جائیں، حقیقت میں ایسے کئی ریلوے اسٹاپ ہیں جو کافی عرصے سے بند کردیئے گئے ہیں جس کی وجہ سے اندرون سندھ سفر کرنے والے لوگوں کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ،تا ہے،حال ہی میں کراچی سے حیدرآباد آنے والی تین اسپیشل ٹرینیں بند کردی گئی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ نواب شاہ، کھٹیان جو پنجاب سے کراچی آنے والی مین لائن پر اہم اسٹیشن تھے وہ بند کردیئے گئے ہیں، مگر سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ کافی عرصے سے حیدرآباد سے میرپور خاص تک بھی ٹرین بند کردی گئی یہ بھی واضح رہے کہ یہ ٹرین سندھ پنجاب بارڈر پر واقع کھوکھر پار اسٹیشن تک جاتی تھی، مگر ماضی میں یہ ٹرین کھوکھرا پار اسٹیشن کو کراس کرکے ہندوستان تک مسافروں کو لیکر جاتی تھی۔ واضح رہے کہ سندھ کے بارڈر کے نزدیک ہندوستان کے کئی اہم صوبے اور علاقے ہیں جن میں گجرات، کچھ، جے پور، اجمیر شریف قابل ذکر ہیں۔ یہ کتنی بڑی ناانصافی ہے کہ یہ روٹ تو بند کردیا گیا، باقی لاہور، واہگہ بارڈر کھلا ہے جہاں سے سارے پاکستان کے لوگ سفر کرکے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں جاتے ہیں، سب سے زیادہ ظلم سندھ کے ان باسیوں کے ساتھ ہے جو پہلے کم کرائے اور کم وقت میں ہندوستان کے ان علاقوں میں پہنچ کر اپنے عزیز و اقارب کے غم و خوشی میں شامل ہوجاتے تھے، میں خاص طور پر سندھ کے نئے وزیر اعلیٰ کی توجہ اس بات کی طرف مبذول کرائوں گا کہ وہ پورا زور لگاکر کھوکھرا پار سے ہندوستان کے لئے جانے والی ٹرین شروع کرائیں، اسی طرح اس لائن پر مسافر ٹرینوں کے ساتھ مال گاڑیاں بھی چلانا شروع کی جائیں اس طرح سندھ میں پیدا ہونے والی مرچی، کھجور اور دیگر زرعی اجناس جن کی ہندوستان میں شدید ضرورت ہے وہ یہاں کے لوگ اس ٹرین سے ہندوستان برآمد کرسکیں گے جس کے نتیجے میں پاکستان بڑی مقدار میں زرمبادلہ کماسکتا ہے۔ ہندوستان میں کئی ایسی اہم اشیاء پیدا ہوتی ہیں جو اس وقت پاکستان دبئی کے ذریعے درآمد کرتا ہے، اگر اس روٹ پر مال گاڑی چلائی جائے تو یہ اشیاء براہ راست ہندوستان کے ان علاقوں سے درآمد کی جاسکتی ہیں اس طرح ان اشیاء کی درآمد پر آنے والے بھاری اخراجات سے پاکستان بچ جائے گا، ا س مرحلے پر میں وزیر اعلیٰ سندھ کی توجہ اس بات کی طرف بھی مبذول کرانا چاہوں گا کہ جب جنرل مشرف کے دور میں چوہدری پرویز الٰہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تو اس وقت اطلاعات کے مطابق پنجاب کے مختلف کالجوں اور اسکولوں کی اسپورٹس ٹیمیں پاکستان کے نزدیک ہندوستان کے علاقوں میں جاکر وہاں کے کالجوں اور اسکولوں کی ٹیموں سے میچ کھیلتی تھیں جبکہ دونوں ملکوں کے ان علاقوں کی ڈیبیٹس کی ٹیمیں بھی ایک دوسرے کے علاقوں میں آکر ڈیبیٹس میں حصہ لیتی تھیں یہ ایک انتہائی اچھا فیصلہ تھا، پتہ نہیں کہ اب بھی پاکستانی پنجاب اور ہندوستانی پنجاب کی ٹیمیں آجا رہی ہیں یا نہیں اگر اب یہ سلسلہ بند کردیا گیا ہے تو یہ دوبارہ شروع کرنا چاہئے بلکہ ہمارا مطالبہ ہے کہ سندھ میں بھی پاک ہندوستان بارڈر کے دونوں اطراف ایسی ٹیموں کا تبادلہ ہونا چاہئے، اس طرح ہندوستان اور پاکستان میں لوگ ایک دوسرے کے نزدیک آئیں گے اور ہوسکتا ہے کہ اس طرح ہندوستان پر دبائو پڑے اور بشمول کشمیر سارے متنازع ایشوز بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر راضی ہوجائے۔ جمعہ کی پریس کانفرنس میں سندھ کے وزیر اعلیٰ نے جو دیگر مطالبات کئے وہ یہ ہیں۔ سندھ کے مفادات پر سودے بازی نہیں کی جائے گی، سارے ادارے اپنی حدود کے اندر رہ کر کام کریں، کراچی آپریشن پر سندھ کے 15ارب روپے خرچ ہوگئے، اس سلسلے میں وفاق فوری طور پر 15ارب روپے سندھ کو دے، سندھ کے کوئلے سے پیدا ہونے والی 3500میگا واٹ بجلی سندھ میں ہی استعمال کی جائے گی۔ واضح رہے کہ 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد جس صوبے میں بجلی پیدا ہوتی ہے وہ اس صوبے کی ملکیت ہے، کیٹی بندر اسکیم کو سی پیک میں شامل کیا جائے، سندھ کو 10ارب روپے کی الیکٹرسٹی ڈیوٹی بحال کی جائے کیونکہ یہ بھی 18ویں ترمیم میں طے ہوچکا ہے، مراد علی شاہ نے خاص طور پر سندھ میں 20گھنٹوں تک لوڈ شیڈنگ کرنے کے خلاف سخت احتجاج کیا، انہوں نے کہا کہ کالا باغ ڈیم مرا ہوا گھوڑا ہے، سندھ میں 100میگا واٹ پاور پلانٹ لگانے کے لئے 200میکا ملین کیوبک فٹ گیس سندھ کو دی جائے، سندھ کو ایل این جی درآمد کرنے کے اختیارات دیئے جائیں، سندھ حکومت نے بجلی کے بلوں کے سلسلے میں 10ارب روپے دیئے جبکہ ریکارڈ میں8.5ارب دکھائے گئے لہٰذا اصل رقم ایڈجسٹ کی جائے، ایف بی آر نے ماہ جون کے دوران لوکل باڈیز اور صوبائی محکموں کے سلسلے میں سندھ کے اکائونٹ سے 7ارب روپے کی کٹوتی کی، یہ مناسب طریقہ نہیں ہے، سکھر بیراج کی مرمت اور بحالی کے سلسلے میں سندھ کی مدد کی جائے۔


.