پوپ فرانسس اور ایک درویش دیہاتی

July 25, 2014

رومن کیتھولک کلیسا کی پاپائیت کے منصب جلیلہ پر فائز اور دنیا بھر کے کیتھولک عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے فرمایا ہے کہ اشتراکیت ( کمیونزم ) نے عیسائیت سے تصورات چوری کیے اور کمیونزم کے بانی کارل مارکس نے کوئی نئی چیز ایجاد نہیں کی ہے ۔ روم کے ایک اخبار روزنامہ ’’ Messaggero ‘‘ کو انٹرویو کے دوران پوپ فرانسس سے کہا گیا تھا کہ وہ میڈیا کی ان آراء پر تبصرہ کریں ، جن میں یہ تاثر دیا گیا ہے کہ پوپ فرانسس کے خیالات اشتراکی نظریہ سے مختلف نہیں ہیں ۔ اس پر پوپ فرانسس کا جواب یہ تھا کہ غریبوں کے لیے سب سے پہلے چرچ آگے آیا تھا ۔کمیونسٹوں نے ہمارا پرچم چرالیا ہے ۔ غریب ،حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کا محور ہیں ۔ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پہاڑ واے خطبے (The Beatitudes ) کا حوالہ دیا اور کہا کہ ’’ کمیونسٹ کہتے ہیں کہ یہی کمیونزم ہے ۔کمیونسٹوں نے 20 صدیوں بعد یہ بات کہی ہے۔کوئی کمیونسٹوں سے بھی کہہ سکتا ہے کہ کیا وہ عیسائی ہیں ؟‘‘ پوپ فرانسس نے مارچ 2013ء میں یہ منصب جلیلہ سنبھالنے کے بعد جو خطبات اور بیانات دیے ، ان سے یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ وہ دنیا بھر کے پسے ہوئے اور محروم طبقات کی آواز اور بے رحم سرمایہ دارانہ نظام کے سخت نقاد ہیں ۔ امریکا کے کمیونسٹ قدامت پسند حلقے انہیں ’’ مارکسسٹ ‘‘ قرار دینے لگے ہیں لیکن پوپ فرانسس اس ’’ لیبل ‘‘ کو مسترد کرتے ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ یورپی یونین کے نئے منتخب صدر ’’ جین کلاڈ جنکر ‘‘ اپنے آپ کو ’’ کرسچن کمیونسٹ ‘‘ کہتے ہیں لیکن پوپ کو مارکسسٹ یا کمیونسٹ کہنا مناسب نہیں ۔ اس بحث میں نہیں پڑنا چاہیے کہ کارل مارکس نے کوئی نئی چیز ایجاد کی یا نہیں کی ۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ معاشی جبر و استحصال کے خلاف کلیسائے روم سے ایک انتہائی معتبر آواز بلند ہوئی ہے ، جس میں صدیوں کا وہ شور دب گیا ہے ، جس میں ہر طرف سے یہ آوازیں سنائی دیتی تھیں کہ ’’ جبر و استحصال کا نظام خدائی ہے اور یہ سب کچھ نوشتہ تقدیر ہے ۔ ‘‘ آئندہ کے لیے بھی ایسے دلائل دینے والوں کے منہ بند ہو گئے ہیں ۔ اس موقع پر مجھے حضرت خواجہ غلام فریدؒ کی نگری کوٹ مٹھن شریف کے غلام محمد ہانبھی مرحوم یاد آ رہے ہیں ۔ ہانبھی انقلابی سوچ رکھنے والے ایک صوفی منش انسان تھے ۔ وہ ساری زندگی اس بات کا درس دیتے رہے کہ انسانوں کے درمیان فرق خدائی نہیں ہے اور سب انسان برابر ہیں ۔ ہانبھی صبح سے رات تک گاؤں ، گوٹھوں ، قصبوں اور شہروں کا سفر کرتے ۔ غیر محسوس طریقے سے لوگوں کے ساتھ اپنائیت کا رشتہ قائم کرتے ۔ ان کے ساتھ کچہری کرتے اور پھر اپنی بات اس دل کشی اور خوبصورتی کے ساتھ بیان کرتے کہ لوگ اپنے کام بھول جاتے ۔ ان کی شخصیت بھی بہت پرکشش تھی ۔ گورے رنگ پر سفید ریش اور سفید زلفیں ان کی شخصیت کو مزید نکھار دیتی تھیں ۔ وہ پیلے رنگ کی پگڑی باندھتے تھے ، جو انہیں بہت زیادہ ججتی تھی ۔ ان کے پاس فریدی رومال میں بندھی کتابوں کی ایک گٹھڑی بھی ہوتی تھی ۔ ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا اور بلاغت میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا ۔ وہ دلائل دیتے تھے تو قرون وسطیٰ کی عربی شاعری کا لطف محسوس ہوتا تھا ۔ وہ بھی یہی بات کرتے تھے ، جو پوپ فرانسس نے کی ہے ۔ ہانبھی صاحب کہتے تھے کہ دنیا کے تمام مذاہب جبرو استحصال کے خلاف اور انسانوں کی برابری کے نظریے کے حامی ہیں ۔ ان کی ایک بات آج تک یاد ہے ۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں لوگوں کو مارکسزم سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ مارکسزم ایک سائنس ہے ۔ تاریخ میں انسان کا اجتماعی شعور اس کا ادراک کرتا رہے گا ۔ ہمیں لوگوں کے ان غلط تصورات سے جان چھڑانی ہے کہ ظلم سہتے رہنا ان کا مقدر ہے ۔ گذشتہ دنوں عالمی خبر رساں ادارے ’’ رائٹر ‘‘ نے موجودہ عالمی اقتصادی صورت حال کے تجزیے پر مبنی اپنے مضمون کا عنوان یہ دیا ہے کہ ’’ کارل مارکس درست تھے ۔ ‘‘ یہ مضمون پاکستانی اخبارات میں بھی شائع ہوا ۔ اس مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ 2008ء میں آنے والے عالمی اقتصادی بحران سے دنیا کسی حد تک نکل آئی ہے لیکن ایک جمود کی کیفیت ہے ۔ یہ ’’ ریکوری ‘‘ مستقل نہیں ہے کیونکہ تین قسم کے عدم توازن عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی جڑوں میں بیٹھ گئے ہیں ۔ یہ سماجی ، جغرافیائی اور آبادی کے عدم توازن ہیں ۔ دولت اور آمدنی کی تقسیم کا عدم توازن سب سے زیادہ خطرناک ہے ۔ جب سرمایہ کا بہاؤ ان لوگوں کی طرف ہوتا ہے ، جو پہلے ہی امیر ہیں تو وہ دولت خرچ کرنے کے بجائے بچت کرتے ہیں جبکہ غریبوں کے پاس خرچ کرنے کے لیے کچھ نہیں ہوتا ہے ۔ سرمایہ کی گردش رک جانے سے بحران نا گزیر ہو جاتا ہے ۔ مضمون میں کہا گیا ہے کہ اس حوالے سے کارل مارکس درست تھے اور انہوں نے اپنی کتاب ’’ داس کیپٹل ‘‘ میں اس بحران کی نشاندہی کردی تھی ۔ مضمون میں یہ تجویز دی گئی ہے کہ اگر عالمی معیشت کو جمود سے نکالنا ہے تو اضافی آمدنی والوں کی دولت ان لوگوں کو منتقل کرنے کا نظام وضع کیا جائے ، جو آمدنی نہ ہونے کی وجہ سے خرچ نہیں کر سکتے ۔ مستقل بنیادوں پر وہ نظام یہ ہو سکتا ہے کہ لوگوں کو آسان قرضے فراہم کیے جائیں ۔ ویسے کارل مارکس نے 1864ء میں ہی یہ کہہ دیا تھا کہ سرمایہ داری جب اپنی انتہا پر پہنچے گی تو اضافی سرمائے کا مصرف یہ ہو گا کہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ قرضے دیے جائیں ۔ لوگ یہ قرضے واپس نہیں کر سکیں گے ۔ بینک دیوالیہ ہو جائیں گے ۔ بینکوںکو بچانے کے لیے ریاست کود پڑے گی ۔ یہی کمیونسٹ ریاست کی تشکیل کی طرف پہلا قدم ہو گا ۔ کارل مارکس کی اس پیش گوئی کو سچ ثابت ہوتے ہوئے دنیا نے دیکھ لیا ۔ آج کل یورپ اور امریکا سمیت پوری مغربی دنیا میں ایک کتاب بہت زیادہ فروخت ہو رہی ہے ، جو فرانس کے ماہر اقتصادیات ’’ تھامس پکیٹی ‘‘ (Thomas Piketty ) نے لکھی ہے اور اتفاق سے اس کتاب کا نام بھی ’’ کیپٹل ‘‘ ہے ۔ 21 ویں صدی میں سرمایہ کے ارتکاز اور اس کے ممکنہ بھیانک نتائج پر یہ انتہائی مدلل کتاب ہے ۔ اس کتاب میں گذشتہ ڈھائی سو سالوں سے سرمائے کے ارتکاز کا جائزہ لیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ ہر دور میں ترقی یافتہ ملکوں میں جو سرمایہ آتا رہا ہے ، وہ متعلقہ دور کی عالمی اقتصادی ترقی کی شرح سے کہیں زیادہ ہے ، جس کی وجہ سے دولت کی تقسیم میں عدم مساوات پیدا ہوئی ہے ، جواس وقت بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے ۔ انہوں نے اس مسئلے کا حل یہ بتایا ہے کہ دولت پر عالمی ٹیکس عائد کرکے اس کی دوبارہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے ۔ دنیا مارکسزم کا وقت کے ساتھ ساتھ خود ادراک کر رہی ہے اور بے رحم سرمایہ دارانہ نظام اپنے منطقی انجام تک بڑھ رہا ہے لیکن اس مرحلے پر غلام محمد ہانبھی کی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ کارل مارکس نے کوئی نئی چیز ایجاد کی یا نہیں۔ فی الحال پوپ فرانسس کی یہ بات قابل ستائش ہے کہ اشتراکیت کوئی نئی ایجاد نہیں ہے ۔