سیاسی قیادت کا عزم ہر بحران کو ٹال سکتا ہے

August 17, 2014

پاکستان تحریک انصاف کا ’’ آزادی مارچ ‘‘ اور پاکستان عوامی تحریک کا ’’ انقلاب مارچ ‘‘ تادم تحریر اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ دونوں کا آغاز پر امن طریقے سے ہوا ۔ اس کا کریڈٹ دیگر رہنماؤں کے ساتھ ساتھ متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) کے قائد الطاف حسین اور گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان کو بھی جاتا ہے ۔ اس حقیقت سے ہم نے یہ سبق حاصل کیا ہے کہ اگرکسی مارچ کا آغاز پر امن ہو سکتا ہے تو اس کا اختتام بھی پر امن ہو سکتا ہے اور سیاسی قوتیں مذاکرات سے ہر مسئلہ حل کر سکتی ہیں ۔
14 اگست کو لاہور میں تصادم اور محاذ آرائی کا پورا ماحول بن چکا تھا ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی وفاقی اور پنجاب حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہوا تھا کہ دونوں جماعتوں کے لانگ مارچ کے قافلوں کو لاہور سے نہیں نکلنے دیا جائے گا۔ پولیس اور انتظامیہ نے آزادی اور انقلاب مارچ کے ممکنہ تمام راستے بند کر دیئے تھے ۔ شاہراہوں ، سڑکوں اور گلیوں کو بڑے بڑے کنٹینر رکھ کر بند کر دیا گیا تھا ۔ حکومت کی پالیسی یہ تھی کہ تحریک انصاف کے قافلے کو جانے دیا جائے جبکہ پاکستان عوامی تحریک کے قافلے کو روک لیا جائے ۔ اس پالیسی کی وجہ سے تصادم اور محاذ آرائی کے یقینی حالات پیدا ہو گئے تھے اور اگر یہ محاذ آرائی ہوتی تو نہ صرف بہت جانی و مالی نقصان ہوتا بلکہ حالات بھی بہت زیادہ خراب ہو جاتے اور اس کا فائدہ کوئی تیسری قوت اٹھاتی ، جس کو اب تک اس کھیل سے دور رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے صورت حال کی سنگینی کا بروقت ادراک کیا اور یہ مناسب سمجھا کہ وہ اپنا کردار ادا کریں ۔ انہوں نے نہ صرف پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت ، وفاقی اور صوبائی حکومت کے ذمہ داروں اور پاکستان عوامی تحریک کی قیادت سے بار بار رابطہ کیا بلکہ گورنر سندھ کو بھی یہ ہدایت کی کہ وہ مسئلے کے حل تک چین سے نہ بیٹھیں ۔ الطاف حسین اور گورنر سندھ نے 13 اور 14 اگست کی درمیانی شب جاگ کر گزاری اور ان کے مسلسل رابطوں سے بالآخر مسئلہ حل ہو گیا ۔ انہوں نے وفاقی اور پنجاب حکومت کو اس بات پر قائل کیا کہ وہ تمام رکاوٹیں ہٹا دیں اور مارچ کے شرکاء کو بلا روک ٹوک جانے دیں ۔ انہوں نے پاکستان عوامی تحریک کی قیادت سے بھی یہ یقین دہانی حاصل کی کہ ان کا انقلاب مارچ پر امن رہے گا کیونکہ حکومت نے یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ پاکستان عوامی تحریک کے کارکن پہلے کی طرح مشتعل ہو کر پر تشدد کارروائیاں کر سکتے ہیں ۔ گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے بھی اس معاملے میں اہم کردار ادا کیا لیکن گورنر پنجاب خود ایک فریق تھے ۔ ثالثی کا حقیقی کردار ایم کیو ایم کی قیادت نے ادا کیا ۔ اسی طرح پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کے ساتھ بھی ایم کیو ایم کے رہنما مسلسل رابطے میں رہے ۔
دنیا نے دیکھا کہ لاہور سے آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کے قافلے انتہائی پر امن انداز میں روانہ ہوئے ۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر سیاسی قیادت عزم کر لے تو ہر مسئلہ حل ہو سکتا ہے ۔ عہد نو کی سیاست جمہوری انداز میں تمام مسائل مذاکرات کے ذریعہ حل کرنے کا نام ہے ۔ جہاں مذاکرات سے گریز کیا جاتا ہے ، وہاں محاذ آرائی جنم لیتی ہے اور محاذ آرائی کی وجہ سے غیر سیاسی قوتوں کو نہ صرف مداخلت کرنے کے مواقع پیدا ہو جاتے ہیں بلکہ معاملات سیاسی قوتوں کے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں ۔ بعض دیگر ممالک کے حالیہ بحرانوں سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے ۔ ایم کیو ایم کی قیادت نے شاید اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنا کردار ادا کیا ۔ اس پر وہ خراج تحسین کی مستحق ہے ۔ ایم کیو ایم کی قیادت نے وہی کچھ کیا ، جو ایک ذمہ دار قومی سیاسی قیادت کو کرنا چاہئے ۔ ایم کیو ایم کا بنیادی موقف یہ رہا ہے کہ جلوس ، جلسوں ، مظاہروں اور مارچ کا جمہوری حق تسلیم کیا جانا چاہئے اور جمہوری معاشروں میں اس حوالے سے کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کی جاتی ۔ ایم کیو ایم کا یہ بھی مؤقف رہا ہے کہ احتجاج چاہے کسی بھی صورت میں ہو ، پر امن ہونا چاہئے ۔ اسی اصولی موقف کی بنیاد پر ایم کیو ایم کی قیادت نے مکمل خلوص کے ساتھ فریقین سے بات چیت کی ، جس کا مثبت نتیجہ نکلا اور حالات خراب نہیں ہوئے ۔ اسی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان کی باقی قومی سیاسی قیادت کو چاہئے کہ وہ اسی طرح کی مثبت سیاسی مداخلت کے ذریعہ پر امن طریقے سے آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کو اپنے منطقی انجام تک پہنچائیں اور ایسے حالات پیدا نہ ہونے دیں ، جن میں معاملات سیاسی قوتوں کے ہاتھ سے نکل جائیں اور غیر سیاسی قوتوں کو مداخلت کا موقع ملے یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک نے اتنی بھرپور عوامی طاقت کا مظاہرہ کر دیا ہے کہ ان کے مطالبات پر سنجیدگی سے غور کیا جائے ۔ اب ان کی ’’ بارگیننگ پوزیشن ‘‘ پہلے سے بہتر ہو گئی ہے ۔ معاملات کو طے کرنے کے لئے سیاسی قوتوں کو موثر کردار ادا کرنا ہو گا اور اس کالم کی اشاعت تک سیاسی قیادت یقیناً اپنا کردار ادا کر رہی ہو گی ۔ کسی کو انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے اس مرحلے پر ایم کیو ایم کے قائدالطاف حسین کی یہ بات مد نظر رکھنی چاہئے کہ ہمیں ملک اور جمہوریت کو بچانا ہے ۔ پاکستان اس وقت حالت جنگ میں ہے ۔ پاکستان کے معاشی حالات بہت خراب ہیں ۔ لوگ غربت ، تنگ دستی ، بے روزگاری اور مہنگائی سے بہت پریشان ہیں ۔ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ نے حالات کو مزید خراب کر دیا ہے ۔ اس مرحلے پر ملک اور جمہوری نظام کے تحفظ کے لیے محاذ آرائی سے گریز بہت ضروری ہے ۔ ایم کیو ایم کے قائد نے جب پہلے یہ بیان دیا تھا کہ محاذ آرائی اور جانی و مالی نقصان سے بچنے کے لئے اگر وزیر اعظم کو اپنے عہدے سے علیحدہ ہونا پڑے تو وہ ہو جائیں۔ اس بیان پر بعض حلقے ناراض ہو گئے تھے لیکن اب انہیں یہ احساس ہو رہا ہے کہ بات اس سے بھی آگے بڑھ چکی ہے ۔ سیاست دان وہ ہوتا ہے ، جو حالات کا صحیح ادراک کر سکے ۔ اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ حالات اسی طرف جا رہے ہیں ، جن کی نشاندہی الطاف حسین نے کی تھی ۔ بہتر یہی ہو گا کہ معروضی حقائق کو تسلیم کر لیا جائے اور پر امن انداز میں تمام معاملات طے کر لئے جائیں کہ آگے ملک کو کس طرح چلانا ہے ۔ اس حوالے سے قومی سیاسی قیادت کا ثالثی کردار بہت اہم ہے ۔