دانشور فلم ہدایتکار

August 22, 2014

پھر یوں ہوا کہ میں نے احمد بشیر(مرحوم) سے پوچھا ’’اچھی فلم کی آپ کے نزدیک تشریح کیا ہے؟‘‘
حمید اختر سے ایک انٹرویو میں سوال کیا… ’’لیکن اچھی فلم کی آپ کیا تعریف کریں گے؟ اے جے کاردار سے یہی سوال پوچھتے میں لندن سے ایمسٹرڈیم آگیا۔ ایمسٹرڈیم میں شمیم اشرف ملک سے بھی یہی سوال پوچھ لیا۔ اشفاق احمد اور جاوید جبار سے بھی اسی سے ملتا جلتا سوال پوچھا۔ میرے حساب سے اچھی فلم کی معتبر تشریح کسی نے کرنا ہی نہیں چاہی۔ یار لوگ Realistic (حقیقت کے مطابق )فلم بنانے بیٹھتے ہیں اور Factul بنا ڈالتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں لوگ ان کے ’’فن‘‘ کو سمجھ نہیں سکے۔ اب ’’لوگ‘‘ لفظ جو ہے یہ سب کیلئے مستعمل ہے اور ہر شخص دانشور یا انٹلیکچول نہیں ہوتا پھر بھی لوگ اصل اور نقل کا فرق خوب جانتے ہیں، اگر اچھی چیزیں بھی فیل ہوا کرتیں تو پھرتورات،انجیل،رامائن اورمہابھارت ابھی تک زندہ نہ رہتیں انہیں تو سمجھنا بھی آسان نہیں ہے۔ میرے خیال یا میری رائے میں جب ہدایتکار factulکی زد میں آجاتا ہے تو دم توڑ دیتا ہے۔ حقیقت بیان کرنا ہدایت کار کا کام نہیں اور پھر جوں کا توں یا ہو بہو اسکرین پر پیش کردینے میں اس کا اپنا کیا کمال ہے؟ فلم میکر حقائق کا وقائع نویس نہیں ہے بلکہ ظاہر و باطن کے درمیان رہنے والے امکانات اور اشاروں کا خبررساں ہے۔ ایک اچھا ہدایتکار فلم کے کرداروں کو اپنے لائحہ عمل اور مقاصد کے مطابق ڈھالنے کی سعی اور اپنے حوصلے کی پیمائش کرتا ہے۔ پاکستان میں چند فلمیں بنی تھیں۔ شمیم ا شرف ملک کی ’’نیند‘‘ گھر پیارا گھر اور ’’سیما‘‘ جاوید جبار کی ساخر، حمید اختر کی سکھ کا سپنا، کنور آفتاب کی جھلک، احمد بشیر کی نیلا پربت اور اشفاق احمد کی ’’دھوپ اور سائے‘‘۔ یہ فلمیں دوسری بننے والی فلموں سے مختلف تھیں۔ ایک طبقہ ان فلموں کو اہم بھی تسلیم کرتا ہے لیکن یہ تمام فلمیں بالخصوص ہماری فلم صنعت پر اور بالعموم قومی زندگی میں رتی بھر اثرات مرتب نہ کرسکیں۔ کچھ عرصہ قبل میں نے کہیں پڑھا تھا کہ پچاس کی دہائی میں ہم متعدد قومی حادثوں سے دوچار ہوئے پچاس کی دہائی ہی میں فیض صاحب اور شمیم اشرف ملک فلم کے میدان میں ا ترے، اسی دہائی میں لیاقت علی خان کے دورہ امریکہ سے اور بعدازاں فوجی اور معاشی تعاون کے معاہدوں کے ذریعے پاکستان کی سیاست آگے بڑھی۔ اس دوران پنڈی سازش کیس کا غلغلہ بھی بلند ہوا، مشرقی بنگال (پاکستان) میں بنگالی کو دوسری قومی زبان قرار دینے کی تحریک چلی، کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر پابندی لگادی گئی، ون یونٹ مسلط کیا گیا۔ 1958 میں قوم کو مارشل لا کے ’’تجربے‘‘ سے گزرنا پڑا پھر اس کے بعد1960 میں بھارتی فلموں پر پابندی لگادی گئی۔ ان تمام برسوں میں فیض احمد فیض کے ساتھ شمیم اشرف ملک، حمید اختر اور احمد بشیر نے اپنی اپنی فلمیں بنائیں۔ احمد بشیر کی نیلا پربت اس عہد کا خاص واقعہ تھا، دوسرا اہم واقعہ یہ تھا کہ ہم نے بورژوا جمہوریت کیلئے جدوجہد اور ایک تازہ دم مارشل لا تک پہنچے۔ 1970 کی دہائی کے پہلے برس میں بنگال ہم سے الگ ہوگیا اور اس کے بعدہم نے پارلیمنٹ کی سیڑھیاں چڑھنا سیکھا۔ اس اثنا میں اشفاق احمد نے دھوپ اور سائے بنائی اور فیض صاحب نے نیف ڈیک کے تعاون سے مشرقی پاکستان میں ایک فلم کا ڈول ڈالا، فلم تو کیا پایہ تکمیل کو پہنچتی کہ پہلی ریلیں ہی بنگال کے خون میں ڈوب گئیں۔ یہاں بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فیض احمد فیض، شمیم اشرف ملک، حمید اختر، احمد بشیر، کنور آفتاب، اشفاق احمد اور جاوید جبار جیسے دانشور کیوں ناکام ہوئے؟ ان کی ناکامی ناسازگار حالات کے کارن تھی یا وہ اپنے دانشورانہ، انتہاپسندانہ تجزیوں کی نذر ہوگئے اور کیوں وہ عوام سے ابلاغ نہیں کرپائے تھے؟ ’’نیند‘‘ غالباً پاکستان کی پہلی سنجیدہ فلم تھی۔ شمیم اشرف ملک جیسے دانشور کی دانشورانہ کوشش۔ اور یہ کوشش ناکامی کے ہاتھوں مات کھاگئی لیکن نیند تو ایک ترقی پسندانہ اور بامقصد فلم تھی اسے کیوں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا؟
’’میں نے بعض غیر اہم نکتوں پر تو سمجھوتہ کیا لیکن میں بیشتر بنیادی مسائل پر ہتھیار ڈالنے کیلئے تیار نہ تھا‘‘۔ شمیم اشرف ملک مرحوم نے مجھے بتایا۔ بنیادی مسئلہ یا مسائل سے ان کی کیا مراد تھی؟ میرے حساب سے سوشلسٹ حقیقت نگاری یا مروجہ قدروں کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا ان کے نزدیک بنیادی مسئلہ تھا۔ دراصل انہوں نے ایک فارمولے کو رد کرکے دوسرا فارمولا پیدا کرنے کی کوشش کی تھی اور یہ کہ آرٹ میں سماجی یا معاشرتی حقیقت نگاری کا تصور سخت قسم کی پابندیاں عائد نہیں کرتا، یہ حقیقت نگاری اپنے سماجی حالات اور تقاضوں کے درمیان جنم لیتی ہے اور پروان چڑھتی ہے۔ شمیم اشرف ملک کی تینوں فلمیں عوام میں پہنچیں تو ضرور لیکن ابلاغ پیدا نہ کرنے کی وجہ سے باکس آفس پر ناکام ہوگئیں۔ حمید اختر کی سکھ کا سپنا۔ آسڑیلیا کے ایک کمیونسٹ ادیب کے ناول (The Power with Glory) پر مبنی فلم تھی۔ حمید اختر نے ایک بار بتایا۔ ’’ترقی پسندانہ فلم کی جانب یہ ایک نہایت اہم قدم تھا۔ فلم کے ساتھ بہترین لوگ وابستہ تھے۔ ہدایتکار مسعود پرویز کے علاوہ فیض صاحب تھے، اداکاروں میں علائو الدین، آغا طالش وغیرہ ہمارے ساتھ تھے، یہ ساری باتیں فلم انڈسٹری کے ابوجہل برداشت نہ کرسکے، ان کا خیال تھا کہ اگر ہم کامیاب ہوگئے تو انڈسٹری کے سکہ بند مفادات خطرے میں پڑجائیں گے۔ چنانچہ ساری فلم انڈسٹری شعوری طور پر ہمارے مقابل آگئی، باقاعدہ سازشی جلسے ہوئے، ہنگامہ برپا ہوا، فلم کے پرنٹ گھٹیا تیار کئے گئے اور وہ بھی بروقت سینما ہال تک نہ پہنچ پائے جس کے باعث پہلے ہی شو میں بدمزگی پیدا ہوگئی۔ مگر میں اپنے سمجھوتہ نہ کرنے پر شرمندہ نہیں ہوں‘‘۔ میری رائے میں یہاں بھی یونٹ کے اراکین کی ’’دانشوری‘‘ نے عوام سے اس انداز میں مکالمہ نہ کیا جسکی انہوں نے توقع پیدا کر رکھی تھی۔
’’نیلا پربت‘‘۔ احمد بشیر نے بلیک اینڈ وائٹ فلم کا نام نیلا پربت تجویز کرکے یہ سمجھ لیا تھا کہ اب دور دور تک کامیابی کا کوئی خطرہ نہیں ہے، سو یہی ہوا۔ لیکن اس کا تجزیہ اور دوسرے دانشور ہدایتکاروں کے فن کے بارے میں آئندہ بات کریں گے۔ چھوٹی چھوٹی باتیں، بڑی بڑی باتیں، ضرر رساں باتیں اور بے ضرر باتیں۔