انسانی نسل کو بہتر بنایا جا سکتا ہے

September 10, 2014

ہالینڈ کے ایک ممتاز سائنس دان ہنس لونت نے کہا ہے کہ بنی نوع انسان کی اصلاح کے لئے ضروری ہے کہ اب اس ’’علم ‘‘ کا از سر نو جائزہ لیا جائے۔‘‘انسانی نوع کی اصلاح کا علم‘‘کا مطلب ہے کہ جین(GENE) کے استعمال سے نسل انسانی کو بہتر بنایا جائے ۔سائنس دانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس علم سے فائدہ اٹھا کر بہتر سے بہتر انسان تخلیق کرنے میں کوئی حرج نہیں اور مستقبل میں لوگ ایسا کرنا چاہیں گے۔ اکیسویں صدی میں اس خیال کو گزشتہ صدی سے زیادہ قبولیت عام حاصل ہوئی ہے کہ جنیات کے ذریعے انسانی نسل کو بہتر بنایا جا سکتا ہے اور یہ کوئی پیچیدہ معاملہ یا خدا کے کاموں میںمداخلت نہیں تاہم 1930ء کی دہائی میں ’’نسل انسانی کی اصلاح‘‘ کا آئیڈیا کچھ زیادہ کامیاب نہ ہو سکا اور اس کی وجہ نازی جرمنی کو ٹھہرایا گیا۔ ہٹلر اور اس کی نازی پارٹی نے یہ اعلان کر دیا کہ وہ اس علم کے ذریعے ایک اعلیٰ ترین انسانی نسل پیدا کرے گی اور اسے اپنے ’’مقاصد‘‘ کے لئے استعمال کرے گے، مگر آج برطانیہ کے نفسیات کے پروفیسررچرڈ لن نے ایک کتاب لکھی ہے جس میں اس نے کہا ہے کہ نسل انسانی کے اصلاح کے نظریئے کو پھر سے دیکھنے اوراس پر ازسر نو غور کرنے کی ضرورت ہے اس نے کہا ہے کہ طبعیاتی ٹیکنالوجی میں آج بے حد ترقی ہو چکی ہے اور بچے کی پیدائش سے قبل حاملہ خاتون کے رحم میں کسی بھی خرابی کی تشخیص اور اس کا مکمل علاج اس بات کی علامت ہے کہ انسانی اصلاح کے علم سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ رچرڈلن کا کہنا ہے کہ مذکورہ علم کی ٹیکنالوجی ضرور مقبول ہو گی کہ یہ نہ صرف انسانی ضروریات کو پورا کرتی ہے بلکہ والدین کیلئے بھی اطمینان بخش ہے۔ والدین کےاطمینان خوشی اور تسلی سے اولاد کی پرورش اور نشو ونما پر بھی مثبت اثر پڑے گا اور نصف سے زیادہ بیماریوں یا خامیوں کا پیدائش سے قبل ہی سدباب کر لیا جائے گا کہ والدین میں سے کوئی بھی یہ نہیں چاہتا کہ ان کی ہونے والی اولاد امراض کا شکار ہو۔ اب یقیناً مستقبل میں ان کی یہ خواہش حرف بحرف پوری ہو جائے گی۔ والدین یہ بھی چاہیں گے کہ ان کے بچے نہ صرف صحت مند اور ذہین و فطین ہوں بلکہ جسمانی طور مضبوط اور طاقتور بھی ہوں لہٰذا یہ علم ان کی تمام خواہشات بخوبی پوری کر سکتا ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر رچرڈ کا خیال ہے کہ اگر آپ کسی فرد کی جینیاتی وضع میں تبدیلی لاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نہ صرف اس فرد کی ہیئت ترکیب بدل رہے ہیں بلکہ اس کی آنے والی نسل کو بھی تبدیل کر رہے ہیں اور جو گو کا دور ختم ہوا اب فقط یہ دیکھا جائے کہ کون ٹوپی میں سے خرگوش نکالنے کا فن جانتا ہے ،کس کی پوٹلی میں زیادہ دلفریب نعرلوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس ٹیکنالوجی کا غلط استعمال ہو گا وہ دراصل وہ مایوسی کا شکار ہیں۔ روز بروز ترقی کرتی ہوئی ٹیکنالوجی کو دیکھا جائے تو مایوسی کیلئے انسانی زندگی میں کوئی جگہ یا مقام نہیں ہے کہ اب تو درازیٔ عمر کا سبب بننے والی جین کی دریافت بھی کر لی گئی ہے امریکی سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے جین کے ایک ایسے گروپ کا پتہ لگا لیا ہے جو کہ طویل عمر کا سبب ہے۔ نیشنل اکیڈمی آف سائنس کے مجلّہ کے تازہ شمارے میں اس کی تفصیلات دی گئی ہیں۔ میگزین لکھتا ہے کہ درازی عمر کا سبب وہ چند جین ہیں جو کہ کروموسوم کے ارد گرد ہوتے ہیں ان کی تعداد چار یا صرف ایک ہو سکتی ہے جبکہ پہلے سمجھا جاتا تھا کہ یہ سینکڑوں کی تعداد میں ہو سکتے ہیں۔ماہرین کو امید ہے کہ انسانی خلیوں کےضعیف ہونےکے بارے میں مزید معلومات حاصل ہونے کے بعد ایسی دوائیں ایجاد ہو سکتی ہیں جو وہی کام کر سکتی ہیں جو درازی عمر کا سبب بننے والی جین کرتی ہے۔ امریکہ کی مختلف یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں کے سائنس دانوں نے ایسے 137بھائیوں اور بہنوں کے خلیوں کا تقابلی مطالعہ کیا ہے جنہوں نے غیر معمولی طور پر طویل عمر پائی تھی ان میں سے (ہر معاملہ میں) بھائیوں اور بہنوں میں سے ایک ایک نے 98یا اس سے زیادہ سال عمر پائی تھی ان میں سے بھائی کی عمر کم از کم93اور بہن کی عمر کم از کم 97سال تھی۔ درازی عمر کے ساتھ ساتھ کلون شدہ انسانی جین کی تیاری بھی زوروں پر ہے سائنس دانوں کے خیال کے مطابق 1920ء کے آخر یا 2021ءکے آغاز میں کلون شدہ انسان تیار کر لیا جائے گا اس سلسلہ میں دو ملکوں کی خفیہ لیبارٹریوں میں کام ہو رہا ہے ۔اس سلسلے میں قبرصی نژاد امریکی سائنس دان یوٹسن پیناریوس نے انکشاف کیا ہے کہ ہماری تحقیق میں اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم جوڑے بھرپور تعاون کر رہے ہیں۔ اس نے بتایا کہ وہ کلون شدہ انسانی جین کے ذریعے لگ بھگ دو سو خواتین کو مائیں بنائیں گے۔ یہ خواتین مکمل طور پر اس کام کے لئے خود کو ذہنی طور پر تیار کر چکی ہیں ۔واضح رہے یا یاد رہے کہ اس سے بیشتر اٹلی کے ایک سائنس دان نے گزشتہ سال جنوری میں اعلان کیا تھا کہ وہ کلوننگ کے ذریعے انسان پیدا کرنے کے ایک منصوبے پر کام کررہا ہے مگر اس کے اس منصوبے پر دنیا میں اچھی رائے قائم نہیں کی گئی تھی لیکن جیسا کہ میں نے اوپر کہا ہے کہ روز بروز ترقی کرتی ہوئی ٹیکنالوجی کو دیکھتے ہوئے انسان ہاتھ پر ہاتھ دھر کر تو نہیں بیٹھ سکتا اس کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ 1425ءمیں کیمبرج، یونیورسٹی کی لائبریری میں کل 122کتابیں تھیں جبکہ آج یہاں ایمسٹرڈیم میں میری ذاتی لائبریری میں1536کتابیں ہیں
پابند مقدر ہو کر بھی ہر چیز پہ قادر ہے انسان
مجبور کا جب یہ عالم ہے مختار کا عالم کیا ہو گا؟