انسان بطور انسان بھی بہت اہم ہوسکتا ہے

August 26, 2016

کراچی میں ہونے والے پیر کے واقعہ کے بعد پہلی بار ایم کیو ایم منفی الطاف حسین ہو گیا ہے، اگر پوری طرح ہوا نہیں تو اس کی ابتداء ہوئی ہے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم کا الطاف حسین کی لندن قیادت سے نکل جانا اور پاکستان میں واپس آنا بہت ضروری تھا۔ سینیٹر بیرسٹر اعتزاز احسن بھی غلط نہیں کہتے کہ یہ راتوں رات نہیں ہوگا مگر اس کی ابتداء تو ہوگئی ہے نا۔ لمبے سے لمبا سفر بھی پہلے قدم سے شروع ہوتا ہے۔سارا قصور قیادت کا بھی نہیں ہوتا، زیادتی بعض اوقات قیادت کے پیچھے چلنے والوں کی بھی ہوتی ہے کہ وہ قیادت کو بشریت یا انسانیت سے بھی اونچا درجہ دے دیتے ہیں، قیادت کے ساتھ کچھ تقدیس بھی لگادیتے ہیں۔ بھائی الطاف حسین کو پیر الطاف حسین بنادیتے ہیں کہ ان کے مرید بن کر فائدہ اٹھائیں۔ ایم کیو ایم کے قائد کے ساتھ بھی یہی ز یادتی ہوئی۔ ان کی تصویر یا شبیہ درختوں کے پتوں میں دکھائی دینے لگی۔ کسی نے کہا ہے کہ پڑھے لکھے لوگوں کی جہالت بہت ہی زیادہ جہالت ہوتی ہے۔ جب کسی انسان کے ساتھ تقدس کا اضافہ کردیا جائے تو پھر اس کی جانب سے کئے جانے والے ہر فیصلے یا ہر عمل کو مقدس سمجھا جاتا ہے۔ اسے ز یر غور یا زیر تنقید نہیں لایا جاسکتا۔ بھائی الطاف حسین کے ارشادات اور اعمال کو بھی کچھ ایسا ہی درجہ دیا گیا جس کی سزا گزشتہ چند سالوں کے دوران ایم کیو ایم کی تنظیم کو برداشت کرنی پڑی اور چند روز پہلے’’پیر کا واقعہ‘‘ منظر عام پر آیا جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہوگی۔ سیاسی جماعتیں بہت محنت اور قربانیوں کے ذریعے وجود میں آتی ہیں اور اپنا وجود منواتی ہیں مگر پیر کے واقعہ جیسا کوئی ایک غیر ذمہ دارانہ واقعہ تمام ماضی پر پانی پھیر دیتا ہے۔ دکھائی دے رہا ہے کہ ایم کیو ایم کم از کم تین گروہوں میں تقسیم ہوجائے گی اور اپنی تمام سیاسی طاقت اور اہمیت کھو بیٹھے گی اور ان گروہوں کو دوبارہ متحد کرنے میں بہت وقت لگے گا۔ اس دوران کچھ نئی سیاسی تحریکیں بھی وجود میں آسکتی ہیں۔ملک میں جاری سیاسی سرگرمیوں میں ملک کے جس سب سے بڑے طبقے کا کوئی ذکر نہیں ہورہا وہ غریب طبقہ ہے جس میں پاکستان کے محنت کش، مزدور اور کسان ہیں۔ فاروق ستار نے ایم کیو ایم کی مستقبل کی سیاست کا ذکر کرتے ہوئے عام شہریوں یعنی عوام کو آگے اور اوپر لانے کا ذکر کیا تھا مگر ان کے پریس کانفرنس کے خطاب میں ان عام شہریوں، غریب، محنت کش، مزدور اور کسان کہلانے والے عوام کا کوئی ذکر نہیں تھا کہ اس طبقے سے تعلق رکھنے والے مسائل کی جانب کون توجہ دے گا۔ غریبوں کے کنٹینر پر کھڑے ہو کر کون خطاب کرے گا اور عام شہریوں کے مہنگائی ، روزگار، جان و مال کے تحفظ، علاج اور تعلیم جیسے مسائل کی جانب کون توجہ دے گا۔


.