پاکستان میں وی آئی پی کلچر

September 29, 2014

پاکستان میں وی آئی پی کلچر پر ہونے والی عوامی مزاحمت گزشتہ دنوں لوگوں کے گفتگو کا موضوع بنی رہی اورکچھ قارئین نے بھی مجھ سے وی آئی پی کلچر پر لکھنے کی درخواست کی۔ میرے کالم عموماً ملکی معیشت پرہوتے ہیں لیکن قارئین کی درخواست اور اپنی دلی تسکین کیلئے میں آج کا کالم ’’وی آئی پی کلچر‘‘ پر لکھ رہا ہوں کیونکہ لفظ ’’وی آئی پی‘‘ مجھے بھی سخت ناپسند ہے۔
دنیا کے مہذب اور ترقی یافتہ ممالک میں وی آئی پی کلچر کو انتہائی بری نظر سے دیکھا جاتا ہے اوران ممالک کے حکمراں عوام کے راستے روکنے کا تصور ہی نہیں کرسکتے کیونکہ اُنہیں اس بات کا احساس ہے کہ وی آئی پی کلچر سے ایک عام آدمی متاثر ہوتا ہے۔ برطانیہ کا شمار دنیا کے امیر ترین ممالک میں ہوتا ہے لیکن وہاں کا وزیراعظم عام شہریوں کی طرح سفرکرتا ہے۔ برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیر کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ جب وہ وزارت عظمیٰ کے منصب سےفارغ ہوئے تو انہوں نے سرکاری رہائش گاہ10 ڈائوننگ اسٹریٹ سے اپنی ذاتی رہائش گاہ تک کا سفر ٹرین کے ذریعے کیا تھا۔ میں سابق وزیراعظم بےنظیر بھٹو شہید کے وفد میں سرکاری مہمان کی حیثیت سے برطانیہ،کوریا،اسپین اور مراکش سمیت کئی ممالک کا دورہ کرچکا ہوں لیکن میں نے وہاں وی آئی پی شخصیات کیلئے عوام کا راستہ روکنے کی کوئی روایت نہیں دیکھی بلکہ وہاں صرف کسی ملک کے صدریا وزیراعظم کی آمد کے موقع پر پولیس اسکواڈ کو متعین کیا جاتا ہے جو اُن کے لئے راستہ ہموار کرتا ہے۔
پاکستان میں وی آئی پی کلچردراصل ایک ذہنیت کا نام ہے جسے پاکستان کے اشرافیہ طبقے نے اپنا رکھا ہے۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ اشرافیہ طبقے کے یہ لوگ جب بھی کسی دورے پر نکلتے ہیں تو سڑکیں بند کرکے عوام کے راستے روک دیئے جاتے ہیں جسکے باعث کئی مریض ایمبولینسوں میں تڑپ تڑپ کرجان دے دیتے ہیں ،حاملہ خواتین رکشہ ٹیکسی میں ہی بچوں کو جنم دے دیتی ہیں۔ میرے نزدیک وی آئی پی کلچر احساس کمتری کا اظہار ہے جس میں مبتلا لوگ عوام کو متاثر کرنے کیلئے شاہانہ طور طریقے اختیارکرتے ہیں۔ یہ لوگ دوران سفر جب اپنی بلٹ پروف گاڑیوں کے کالے شیشوں سے عوام کو دیکھتے ہیں تو اُنہیں اپنی برتری اور شان و شوکت پر خوشی کا احساس ہوتا ہے جبکہ ان کے حفاظتی اسکواڈ میں شامل اسلحہ لہراتے اہلکار راستہ ہموار کرنے کے لئے عوام سے انتہائی تضحیک آمیز سلوک کرتے ہیں حالانکہ انہی عوام کے ٹیکسوں سے ہی وی آئی پی شخصیات کو بلٹ پروف گاڑیاں اورسیکورٹی اسکواڈ فراہم کی جاتی ہے۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح وی آئی پی کلچر کے سخت خلاف تھے۔ اُن کے بارے میں مشہور ہے کہ جب وہ بیماری کی حالت میں زیارت سے کراچی پہنچے تو ائیرپورٹ سے گورنرجنرل ہائوس آتے ہوئے راستے میں ان کی ایمبولینس خراب ہوگئی۔ اس موقع پر قائداعظم کے رفقاء نے اُنہیں بیرون ملک علاج کا مشورہ دیا لیکن قائداعظم نے اپنے وطن میں ہی علاج کرانے کو ہی ترجیح دی اور دوسری ایمبولینس کے انتظار میں تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ تک شدید گرمی میں سڑک پرہی رہے۔ افسوس کہ آج کے حکمراں و سیاستدان سرکاری خرچ پر بیرون ملک علاج کرانے اورمہنگی ترین بلٹ پروف گاڑیوں میں سفر کرنے میں فخرمحسوس کرتے ہیں تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ کچھ سیاستدان ایسے بھی ہیں جو وی آئی پی کلچر کے سخت خلاف ہیں۔ سابق نگراں وزیراعظم ملک معراج خالد جو میرے بھائی اشتیاق بیگ اور اُن کی اہلیہ کے مداح تھے، نے اپنے دور میں اشتیاق بیگ اور اُن کی اہلیہ کو خصوصی مہمان کی حیثیت سے وزیراعظم ہائوس مدعو کیا۔
کچھ روزہ قیام کےدوران اشتیاق بیگ کو ملک معراج خالد کے بارے میں انتہائی متاثرکن واقعات کا علم ہوا۔ اشتیاق بیگ کے بقول ملک معراج خالد درویش صفت سیاستدان تھے، وہ فضائی سفرکا بورڈنگ کارڈ لائن میں لگ کر خود حاصل کرتے تھے جبکہ اپنا سامان بھی خود اْٹھاتےاورعام مسافروں کےگیٹ سے ائیرپورٹ سے باہرنکلتے تھے۔ ایک دفعہ ان کی اسٹاف کار کے آنے میں تاخیر ہوگئی تو وہ رکشہ میں بیٹھ کر تقریب میں جاپہنچے اور وہاں موجود لوگوں نے جب یہ منظر دیکھا تو انہوں نے نگراں وزیراعظم کو رکشے سمیت کندھے پر اٹھالیا اور اُن کے حق میں نعرے لگائے۔ اسی طرح گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور جو میرے بھائی اشتیاق بیگ اور میرے قریبی دوست ہیں،بھی سادہ مزاج طبیعت رکھتے ہیں۔ گزشتہ دنوں چوہدری محمد سرورنے اپنی سرکاری مصروفیات میں سے کچھ وقت نکال کرکراچی میں قیام کا فیصلہ کیا جس کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ قومی ایئر لائن کی پرواز سے رات 12 بجے کراچی پہنچ رہے ہیں لہٰذا میں اُنہیں ریسیو کرنے کے لئے ایئرپورٹ پہنچ جائوں۔
شہر کے موجودہ حالات میں گورنر پنجاب کا سیکورٹی کے بغیر ایئرپورٹ سے میری رہائش گاہ تک آنا اور قیام کرنا مناسب نہیں تھا لیکن گورنر پنجاب کا اصرار تھا کہ چونکہ یہ میرا ذاتی دورہ ہے اس لئے وہ کسی قسم کی سرکاری سہولت لینا مناسب نہیں سمجھتے۔ بہرحال میں جب اپنے ڈرائیور اورگارڈز کے ہمراہ گورنر پنجاب کو لینے ایئرپورٹ پہنچا تو وہاں متعین اے ایس ایف اہلکاروں نے میرے گارڈز کو چیک پوسٹ سے آگے جانے سے روک دیا جس پر میں نے اے ایس ایف کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کرنل طاہر سے فون پر رابطہ کیا اور اُنہیں صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ چونکہ گورنر پنجاب میرے ہمراہ آرہے ہیں لہٰذا سیکورٹی خدشات کے پیش نظر گارڈز کو ساتھ جانے کی اجازت دی جائے لیکن کرنل طاہر نے بتایا کہ اُنہیں گورنر پنجاب کی کراچی آمد کی سرکاری طور پر کوئی اطلاع نہیں دی گئی اور نئے سیکورٹی قوانین کے تحت مسلح گارڈز کو چیک پوسٹ سے آگے جانے کی اجازت نہیں۔ میں قانون پسند سیکورٹی افسر کرنل طاہر کے جواب سے بہت متاثر ہوا اور پھر گارڈز کو وہاں اتارکر اکیلا ہی گورنر پنجاب کو لینے گیا۔ یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصد کسی کی تعریف کرنا نہیں بلکہ یہ بتانا تھا کہ ہم تینوں یعنی گورنر پنجاب، سیکورٹی افسر اور میں نے انا کا مسئلہ بنائے بغیر قانون کا احترام کیا۔
پاکستان میں تعلیم یافتہ طبقہ آج بھی وی آئی پی کلچر سےگریز کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اُنہیں نے علم،کردار اور اخلاق جیسی خوبیاں عطا کی ہیں لیکن جاگیردارانہ اور وڈیرانہ ذہنیت کے حامل افراد یا کم تعلیم یافتہ طبقے کے لوگ دولت اور سفارش کے بل بوتے پر اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے کے بعد میرٹ اور انصاف کو پس پشت ڈال کر ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے کرپشن، اقربا پروری اور وی آئی پی کلچر کو فروغ دیتے ہیں۔ میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ ملک میں امن و امان کی موجودہ خراب صورتحال کے پیش نظر سیاسی و مذہبی رہنمائوں اور اہم شخصیات کو سیکورٹی فراہم کرنا اشد ضروری ہے لیکن میرے نزدیک سیکورٹی اور وی آئی پی کلچر میں بہت فرق ہے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ جس معاشرے میں ظلم، ناانصافی اور لاقانونیت پرعوام خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں، وہ معاشرہ زوال اور تنزلی کا شکار ہوتا چلا جاتا ہے کیونکہ معاشرے کو سنوارنے و نکھارنے کی ذمہ داری عوام پر ہی عائد ہوتی ہے، اگر آج عوام وی آئی پی کلچر کو برداشت کرنا چھوڑ دیں تو یہ کلچر اپنی موت آپ ہی مرجائے گا۔