بلاول بھٹو زرداری کو سیاست کا ادراک ہے لیکن

October 12, 2014

پاکستان پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری 18 اکتوبر کو کراچی میں مزار قائد پر اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنے جارہے ہیں۔ اس موقع پر ایک بہت بڑے جلسہ عام کی تیاریاں جاری ہیں ۔ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا یہ ہے کہ یہ وہی جلسہ ہے ، جو آج سے 7 سال پہلے18 اکتوبر 2007 ء کو اسی جگہ منعقد نہیں ہو سکا تھا کیونکہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے استقبالی جلوس میں کارساز کے مقام پر دو بڑے بم دھماکے ہوئے تھے،جن میں تقریباً180 افراد شہید ہو گئے تھے اور600 سے زائد افراد زخمی ہو گئے تھے ۔ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ جس قافلے کو دہشت گردی کے ذریعے کارساز کے مقام پر روکا گیا تھا ، اسی قافلے کو ساتھ لے کر وہ اپنے سیاسی سفر کا آغازکریں گے ۔ انہیں اس بات کا یقیناً اندازہ ہو گا کہ وہ کس قدر مشکل سفر پر گامزن ہورہے ہیں۔ قتل گاہوں سے علم چن کر عشاق کے قافلے نکالنا یقیناً اس قدر بڑا کام ہے ، جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
یہ حقیقت ہے کہ بلاول بھٹو زرداری جن حالات میں سیاست کے میدان خارزار میں اتررہے ہیں وہ حالات کسی دوسری سیاسی جماعت اورکسی دوسرے سیاسی رہنما کے لئے نہیں ہیں ۔ بلاول بھٹو زرداری کوبھی اس بات کا ادراک ہے اور اس کا اظہار انہوں نے عیدالاضحیٰ کے موقع پر بلاول ہاؤس میں شہداء کے اہل خانہ سے خطاب کرتے ہوئے بھی کیا ۔ بلاول بھٹو کا یہ کہنا تھا کہ کچھ لوگوں نے انہیں 18 اکتوبر کا جلسہ نہ کرنے کے لئے کہا ہے اور اس کا سبب یہ بتایا ہے کہ حالات خراب ہیں ۔ بلاول بھٹو نے اپنے خطاب میں یہ سوال بھی کیا کہ آخر حالات صرف پیپلزپارٹی کیلئے خراب کیوں ہوتے ہیں ؟ بلاول بھٹو زرداری کا یہ سوال بھی ہے اور ایک حقیقت کا اظہار بھی ہے ۔ وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں صرف پیپلز پارٹی کی سیاست کو روکنے کے لئے ملک میں ایسے حالات پیدا کئے گئے ہیں ۔ لہٰذا بلاول بھٹو زرداری کو حالات کی سنگینی کا مزید احساس دلانے کی ضرورت نہیں ہے ان کا خاندان عظیم حادثات سے دو چارہوچکا ہے ۔ ان کے نانا کا عدالتی حکم پر قتل کیا گیا ۔ ان کے دونوں ماموں میر مرتضیٰ بھٹو اور میر شاہ نواز بھٹو بھی قتل کر دیئے گئے۔ ان کی والدہ کو بھی دہشت گردوں نے شہید کردیا ۔ ان کی پارٹی کے ہزاروں کارکنان اپنی جانیں قربان کرچکے ہیں ۔ لہٰذا بلاول بھٹوزرداری کو یہ بتانے کی بھی ضرورت نہیں ہے کہ عوام اور جمہوریت دشمن قوتیں کس قدربے رحم ہیں ۔ سیاست کے میدان میں اترتے ہوئے ان سے زیادہ کسی کو اندازہ نہیں ہوگا کہ کن قوتوں کا مقابلہ کرنا ہے اور سیاست کیلئے کیا راستہ اختیار کرنا ہے ۔ انہوں نے اپنے خطاب میں بھی یہ بات کہی ہے کہ یہ نہ بتایا جائے کہ انہیں کیا راستہ اختیار کرنا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ انہیں پاکستان کی سیاست کا مکمل ادراک ہے لیکن اس کے باوجود بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں ، جو کرنی بھی چاہئیں اور سننی بھی چاہئیں ۔
بلاول بھٹو زرداری کے الفاظ اور لہجے میں جو تلخی ہے،وہ درست ہے کیونکہ ان کے خاندان اور پارٹی کے لوگوں کے ساتھ بہت زیادتیاں ہوئی ہیں ۔ پاکستان کے لوگ اس تلخ لہجے میں بات سننے کے بھی منتظر تھے ۔ پاکستان کے عوام مظلوم سے محبت کرتے ہیں اور انہیں احتجاج کا لہجہ اچھا لگتا ہے لیکن بلاول بھٹو زرداری کو یہ بات بھی مد نظررکھنی چاہئے کہ انہیں نہ صرف ایک طویل جنگ لڑنی ہے بلکہ انہیں سیاست میں بہت لمبا سفر طے کرنا ہے۔ مختصر لڑائی کے لئے الگ حکمت عملی ہوتی ہے اور طویل جنگ کیلئے الگ حکمت عملی ہوتی ہے۔ دونوں صورتوں میں ایک ساتھ کئی محاذ کھول لینا کسی بھی طرح اچھی حکمت عملی تصور نہیں کی جاتی۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری نے پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور قیادت کے درمیان پیدا ہونے والی خلیج ختم کرنے کے لئے اقدامات کئے ہیں اور یہ اچھی بات ہے کہ انہوں نے ضلعی سطح پر پارٹی کے عہدیداروں اور منتخب ارکان کے ساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے ۔ وہ کارکنوں سے ملاقاتوں کے لئے دیگر مواقع بھی تلاش کرتے رہتے ہیں لیکن خلیج پیدا ہونے میں جتنا وقت لگا ہے اس سے زیادہ وقت یہ خلیج ختم کرنے میں لگے گا ۔ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ کام کرنے والے کارکنان اب اپنی عمر کے آخری حصے میں ہیں ۔ ان میں شاید دوبارہ سرگرم ہونے کی خواہش نہ ہو ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ کام کرنے والے کارکنان اوررہنما سب سے زیادہ مایوسی کا شکار ہیں کیونکہ محترمہ کی شہادت کے بعد نہ صرف پارٹی قیادت کا کارکنوں سے وہ رابطہ ختم ہو گیا جو محترمہ بے نظیر بھٹو کا تھا ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے پارٹی میں نیا خون اور نیا کیڈر ( Cadre ) شامل کرنے کا جو عمل شروع ہوا تھا ، وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور تک جاری رہا ۔ اس کے بعد یہ سلسلہ رک گیا ۔ سالہا سال سے پارٹی میں بڑے پیمانے پر نیا خون اور نیا کیڈر شامل نہیں ہورہا ۔ بلاول بھٹو زرداری کو اپنے ارد گرد جن نوجوانوں کی ٹیم نظرآتی ہے ، وہ نہ صرف ان کے مخصوص حلقے سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ ایک مخصوص طبقے سے بھی ان کا تعلق ہے ۔ پارٹی میں ادھیڑعمر کے جو لوگ اس وقت فرنٹ پر ہیں ، ان کا پیپلزپارٹی سے کوئی تعلق نہیں رہا ہے ۔ وہی لوگ آج پیپلز پارٹی کا ’’ چہرہ ‘‘ ہیں ۔ وہی لوگ ہر فورم پر پیپلز پارٹی کی نمائندگی کررہے ہوتے ہیں،پیپلز پارٹی کی طرف سے ڈائیلاگ کررہے ہوتے ہیں اور میڈیا پر پیپلز پارٹی کا موقف بیان کررہے ہوتے ہیں ۔ اس وقت جو پیپلز پارٹی کا چہرہ ( Face) بنایا گیا ہے، اس سے پیپلز پارٹی کے پرانے لوگ ابھی تک شناسا نہیں ہوسکے ہیں اور ان کی وجہ سے انہیں پیپلزپارٹی سے بیگانگی محسوس ہوتی ہے۔ اس وقت پیپلز پارٹی کے پاس جو کیڈرعوام اور پارٹی کے درمیان رابطے کو بحال کرسکتا ہے ، وہ صرف اور صرف وہی کیڈر ہے ، جس نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ کام کیا تھا ۔ یہی پارٹی کا اصل اثاثہ ہے ۔ عوامی سطح پر نیا کیڈر نہیں ہے ۔ اس پرانے کیڈر میں احساس بیگانگی ختم کرنے کے لئے اسی کیڈر میں سے ہی دوبارہ لوگوں کو آگے لانا ہو گا ۔ یہی کیڈر پارٹی میں نیا خون اور نیا کیڈر شامل کرے گا ۔ حقیقی دانش عوام کی دانش ہوتی ہے اور عوام ہی حالات کا بہترادراک رکھتے ہیں ۔ اگرچہ بلاول بھٹو زرداری ایک بڑے سیاسی ورثے کی دانش سے لیس ہیں اور انہیں کوئی بات سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے لیکن وہ ان دوباتوں پرضرورغور کرلیں کہ ایک ساتھ کئی محاذ کھولنا پسندیدہ عمل نہیں اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ کام کرنے والے پارٹی کے اصل اثاثے میں احساس بے گانگی ختم کرنے کے لئے ، پارٹی کا وہ چہرہ تبدیل کرنا ہو گا جو پارٹی کارکنوں اور عوام میں احساس بے گانگی کا سبب ہے ۔