موجودہ سیاسی صورتحال سے بہتر طریقے سے نمٹا جاسکتا ہے

October 13, 2014

گزشتہ دنوں عیدالاضحی کے موقع پر گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے کراچی کے 10ممتاز صنعتکاروں اور بزنس لیڈروں کو گورنر ہائوس مدعو کیا جس کا بنیادی مقصد عید کی مبارکباد اور ملاقات تھی لیکن ملاقات کے دوران عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی گورنر سندھ کو موصول ہونے والی ٹیلیفون کال نے باتوں کا رخ موجودہ سیاسی صورتحال کی طرف موڑ دیا جن میں سے کچھ دلچسپ باتیں میں آج قارئین سے شیئر کرناچاہتا ہوں۔ یاد رہے کہ گورنر سندھ ڈاکٹرعشرت العباد اورگورنر پنجاب چوہدری محمد سرورحکومتی سطح پر ڈاکٹر طاہرالقادری سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ کچھ ماہ قبل ڈاکٹر طاہرالقادری کی پاکستان آمد کے موقع پر جب ان کے طیارے کا رخ اسلام آباد سے لاہور کی طرف موڑ دیا گیا اور طاہر القادری نے اپنے ساتھیوں سمیت طیارے سے اترنے سے احتجاجاً انکار کیا تو گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور اور گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد ہی وہ شخصیات تھیں جن کی کوششوں کے نتیجے میں ڈاکٹر طاہر القادری اپنے ساتھیوں سمیت طیارے سے اترنے پر آمادہ ہوئے۔
گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد سے ہونے والی گفتگو کے مطابق احتجاجی دھرنوں کے اسکرپٹ کا آغاز 15 جون 2014ء سے شروع ہونے والے فوجی آپریشن ’’ضرب عضب‘‘ سے ہوا۔ دہشت گردوں کیخلاف فوجی آپریشن کا فیصلہ اس وقت کیا گیا جب دہشت گردوں نے ایف سی جوانوں کے سر قلم کرکے ان سے فٹبال کھیلی اور کراچی ایئر پورٹ کا سانحہ پیش آیا جس میں دہشت گردوں نے ملکی اور غیر ملکی طیاروں کو اغواء کرکے اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرنے کا منصوبہ بنارکھا تھا تاہم سیکورٹی اداروں بالخصوص ایئر پورٹ سیکورٹی فورس نے اپنی جانوں پر کھیل کر دہشت گردوں کے تمام عزائم خاک میں ملادیئے لیکن دہشت گرد پھر بھی باز نہ آئے اور انہوں نے اپنا اگلا ہدف پشاور ایئر پورٹ کو بنایا جہاں قومی ایئر لائن کے طیارے پر راکٹ لانچر سے حملہ کیا گیا جس کے بعد سیکورٹی خدشات کی بناء پر غیر ملکی ایئر لائن کیتھی پیسفک نے پاکستان میں اپنا آپریشن بند کردیا جبکہ متحدہ عرب امارات کی ایمریٹس اور اتحاد ایئر لائنز نے پشاور کیلئے پروازیں بندکردیں، اس طرح عالمی سطح پر پاکستان کی سیکورٹی پر سوالیہ نشان لگ گیا۔ ایسی صورتحال میں پاکستان کی غیور مسلح افواج نے ملکی سیکورٹی اور وقار کی بلندی کے لئے شمالی وزیرستان اور فاٹا میں آپریشن ’’ضرب عضب‘‘ کا آغاز کرتے ہوئے دہشت گردوں کی کمین گاہوں پر تابڑ توڑ حملے کئے اور آج ہمیں فخر ہے کہ پاک فوج نے دہشت گردوں کے قبضے سے 90% علاقے آزاد کرالئے ہیں۔
فوجی آپریشن کے پیش نظر تحریک انصاف سمیت مختلف سیاسی جماعتوں نے اپنی احتجاجی مہم کو پس پشت ڈال دیا تھا کیونکہ وہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ دہشت گردوں کے خلاف جاری فوجی آپریشن دھرنوں اور مظاہروں سے متاثر ہو لیکن 17 جون کو ماڈل ٹائون لاہور میں وہ خوشگوار واقعہ پیش آیا جس میں عوامی تحریک کے 14 کارکن اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے اور پھر 23 جون کو ڈاکٹر طاہر القادری کی کینیڈا سے پاکستان آمد نے احتجاجی تحریک میں شدت پیدا کردی جس کا باقاعدہ آغاز دھرنوں کی صورت میں اگست کے اوائل میں ہوا۔ میرے خیال میں سانحہ ماڈل ٹائون کے فوراً بعد اگر وزیراعظم میاں نواز شریف یا وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف عوامی تحریک کے شہداء کے لواحقین سے تعزیت اور فاتحہ خوانی کے لئے منہاج القرآن چلے جاتے تو احتجاج کی شدت میں کافی حد تک کمی آسکتی تھی لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔
احتجاجی دھرنوں کے دوران پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے جمہوریت، آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے عزم کا اظہار کیا اور اس سلسلے میں متفقہ قراردادیں بھی منظور کی گئیں۔ اس کے علاوہ حکومت اور اپوزیشن کی مختلف مذاکراتی ٹیمیں بھی تشکیل دی گئیں جنہوں نے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے خدشات دور کرنے کے لئے مذاکرات کئے۔ تحریک انصاف کا موقف ہے کہ گزشتہ انتخابات میں ہونے والی دھاندلیوں کی تحقیقات کی جائے اور اس دوران وزیراعظم میاں نواز شریف اپنے عہدے سے مستعفی ہوں تاکہ شفاف تحقیقات یقینی بنائی جاسکے جبکہ عوامی تحریک کا موقف ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف سانحہ ماڈل ٹائون کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنے عہدے سے مستعفی ہوں۔ حکومت نے دونوں جماعتوں کے مطالبات کے پیش نظر سپریم کورٹ کے 3ججز پر مشتمل کمیشن تشکیل دیا جبکہ عدالت عظمیٰ کی ہدایت پر سانحہ ماڈل ٹائون کی ایف آئی آر بھی درج کرلی گئی ہے جس میں عوامی تحریک کے مطالبے پر وزیراعظم، وزیراعلیٰ پنجاب اور دیگر اعلیٰ حکام کو نامزد کرتے ہوئے مطلوبہ دفعات درج کرلی گئی ہیں اور عوامی تحریک کو پیشکش کی گئی ہے کہ وہ سانحہ ماڈل ٹائون کی تحقیقات کے لئے قائم کی گئی تحقیقاتی ٹیم میں اپنی مرضی کے قابل اعتماد ایماندار افسر شامل کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ حکومتی اور اپوزیشن مذاکراتی ٹیم نے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے سربراہان کو ضامن کی حیثیت سے یہ یقین دلایا گیا کہ کمیشن کی سفارشات پر ہر حالت میں عملدرآمد کرایا جائے گا چاہے اس کے لئے پارلیمنٹ میں نئی قانون سازی ہی کیوں نہ کرنا پڑے جبکہ دھاندلی ثابت ہونے پر وزیراعظم مڈٹرم انتخابات کا اعلان کرسکتے ہیں تاہم اس دوران آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے سربراہان سے ملاقات پر حکومتی بیان سے پیدا ہونے والی غلط فہمیوں اور آئی ایس پی آر کی تردید نے حالات کو مزید الجھا دیا۔ گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور جو اگست میں میری صاحبزادی کی شادی میں شرکت کے لئے کراچی تشریف لائے تھے، نے اس دوران میرے ہمراہ پیپلزپارٹی کے ایڈیشنل سیکریٹری جنرل سینیٹر رضا ربانی سے موجودہ سیاسی صورتحال کے حوالے سے صلاح و مشورے کے لئے ملاقات کی تاہم اسی روز انہیں گورنر سندھ ڈاکٹرعشرت العباد کے ہمراہ ڈاکٹر طاہر القادری سے مذاکرات کے لئے اسلام آباد بلالیا گیا۔
دوران گفتگو گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے بتایا کہ انتخابی دھاندلی کی شفاف تحقیقات کیلئے عمران خان اور طاہر القادری کو تحقیقاتی کمیشن کے ججز، نادرا اور الیکشن کمیشن کے سربراہان اپنی مرضی و پسند سے منتخب کرنے کی آزادی دی گئی ہے۔ گورنر سندھ کا کہنا تھا کہ انہوں نے وزیراعظم کو مشورہ دیا تھا کہ اگر وہ گورنر پنجاب اور میرے ہمراہ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے سربراہان سے کنٹینر میں جاکر ملاقات کریں تو سیاسی صورتحال میں کافی حد تک بہتری آسکتی ہے۔ گزشتہ ہفتے گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کے خصوصی مہمان کی حیثیت سے میں نے اپنے بھائی اشتیاق بیگ کے ہمراہ گورنر ہائوس لاہور میں دو روز قیام کیا۔ اس دوران گورنر پنجاب سے موجودہ سیاسی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔ گورنر پنجاب اور گورنر سندھ سے سیاسی صورتحال پر ہونے والی گفتگو کے پیش نظر میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ حکومت موجودہ سیاسی صورتحال سے بہتر طریقے سے نمٹ سکتی تھی اور کسی نقصان کے بغیر مسائل حل کئے جاسکتے تھے۔ آج مجھے احتجاجی دھرنوں سے قبل فروری 2014ء میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری سے اسلام آباد ایئرپورٹ کے لائونج میں ہونے والی وہ ملاقات یاد آرہی ہے جس میں احمد رضا قصوری نے بتایا تھا کہ عید سے قبل ٹیکنو کریٹس پر مشتمل قومی حکومت بننےجارہی ہے اور احتجاجی دھرنوں کے ذریعے حکومت پر دبائو بڑھانے کیلئے ڈاکٹر طاہر القادری جون میں پاکستان آرہے ہیں جن کی تحریک میں عمران خان بھی ان کا ساتھ دے سکتے ہیں۔ چونکہ اس وقت ملک کی سیاسی صورتحال مستحکم تھی، اس لئے مجھے احمد رضا قصوری کی باتیں محض قیاس آرائیاں لگیں لیکن آج ان کی باتیں سچ لگ رہی ہیں۔ کالم کے اختتام پر مجھے یہ بات کہنے میں کوئی جھجک نہیں کہ حکومت موجودہ سیاسی صورتحال سے بہتر طریقے سے نمٹ سکتی تھی لیکن یکے بعد دیگرے معاملات الجھنے سے آج صورتحال جمود کا شکار ہے لہٰذا وزیراعظم میاں نواز شریف سے درخواست ہے کہ وہ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے سربراہان سے بامقصد مذاکرات کیلئےگورنر سندھ اور گورنر پنجاب کو مکمل اختیارات دیں کیونکہ ملکی معیشت احتجاجی دھرنوں کے نتیجے میں ہونیوالے مزید نقصانات کی متحمل نہیں ہوسکتی۔