حکمراں سادگی اپنائیں!

September 03, 2016

عربی کے ایک مشہور مقولےکے مطابق ’’ عوام اپنے حکمرانوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں‘‘۔ حکمراںچاہئے جیسے رجحانات رکھتے ہوں، جس چیز کی حوصلہ افزائی کرتے ہوں، عوام اس پر خود بخود چل پڑتے ہیں۔آئیے اس کی چند مثالیں دیکھتے ہیںـ:
یہ لندن ہے۔جب لندن کے میئر آفس آئے تو تنِ تنہا تھے۔ آس پاس سے کوئی آواز بلند ہوئی، نہ ہی آداب اور نہ کوئی چاپلوسی وخوشامدانہ جملے۔ صرف ایک بیگ ان کے پاس تھا جس کو وہ خود ہی اُٹھائے ہوئے تھے، اسی میں ان کا سارا سامان بھی تھا۔ کوئی خادم ساتھ نہیں تھا اور گارڈ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ عام ٹرین ہی میں سوار ہوکر آئے تھے۔ نہ کوئی نیلی روشنی والے سائرن، نہ ہٹو بچو کا شوروغل اور نہ ہی کوئی لینے آیا۔ اسٹیشن پر اُتر کر عام مسافروں کے ہجوم میں کھوگئے۔ بغیر سفارش اور بغیر وقت لئے ہر شخص بہ سہولت مل کر اپنا مسئلہ بتاسکتا تھا۔ وہ لندن میں عام شہریوں کی طرح گھوم پھر رہے تھے۔ عام ہوٹل میں ہی کھاپی رہے تھے اور کھلی کچہری ہورہی تھی۔
یہ یورا گوائے ہے۔ لاطینی امریکہ کے ایک ملک یورا گوائے کے صدر خوزی موخیکا کا شمار بھی ایسے ہی سیاستدانوں میں ہوتا ہے۔ ملک کا صدر ہونے کے باوجود انہوں نے ایوان صدر میں رہنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے اپنے عام سے گھر کو ترجیح دی جہاں وہ بغیر ملازم کے رہتے ہیں۔ پانی وہ کنویں سے حاصل کرتے ہیں اور ان کے کپڑے دھونے کی جگہ گھر سے باہر ہے۔موخیکا کے پاس ایک قطعہ اراضی ہے جہاں دونوں میاں بیوی گل داودی کاشت کر کے گزر بسر کرتے ہیں۔ اْن کے بعض ہم وطن اْن کے طرز زندگی پر تنقید کرتے ہیں کہ بطور صدر انہیں ایسی زندگی اختیار کرنا زیب نہیں دیتی لیکن زیادہ تر کی نظر میں وہ ہیرو ہیں۔ یہ بھارت ہے۔ بھارتی ریاست تریپورا کے وزیراعلیٰ مانک سرکار جو کمیونسٹ پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں، ملک کے سب سے غریب حکمران ہیں۔ انہیں اقتدار میں آئے پندرہ برس ہو چکے ہیں، لیکن اْن کے پاس ذاتی گھر اور گاڑی نہیں ہے۔مانک سرکار اپنی ساری تنخواہ اور الاؤ نسز پارٹی کے خزانے میں جمع کراتے ہیں۔پارٹی انہیں محض پانچ ہزاربھارتی روپے دیتی ہے جو آٹھ ہزار چار سو جونسٹھ روپے کے برابر ہیں۔ ایک ریاست کا وزیر اعلیٰ ان پیسوں سے اپنا گھربار چلاتا ہے۔
یہ امریکہ ہے۔امریکی یونیورسٹی سٹینفرڈ کے پروفیسرڈیوڈ چیریٹون کی دولت کا تخمینہ تین ارب ڈالریعنی 300ارب روپے لگایا گیا ہے۔اس ارب پتی کے پاس آج بھی1986ء ماڈل کی والکس ویگن ہے اور آج بھی وہ اپنے30سال پرانے گھر میں رہ رہا ہے۔ اسی طرح ڈش نیٹ ورک کے چیئرمین چارلی ایرگین کی دولت کا اندازہ16.3 ارب ڈالر، یعنی 1630ارب روپے لگایا گیا ہے اورآج بھی وہ گھر سے ہی لنچ بنا کر ساتھ لے کر جاتا ہے۔فیس بک کے بانی اور CEOمارک زکر برگ کی دولت کا اندازہ 32.4یعنی 3240ارب روپے ارب ڈالر لگایا گیا ہے،مگرآج بھی وہ 30ہزار ڈالر والی گاڑی میں گھومتا ہے۔ایپل کے CEOٹم کک کی دولت کا اندازہ 400ملین ڈالر لگایا گیا ہے، لیکن آج بھی وہ ایک چھوٹے سے گھر میں رہتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ اپنے آپ کو یہ یاد کروانا چاہتا ہے کہ اسے اپنی اصلیت نہیں بھولنی چاہئے۔ اس کا کہنا ہے کہ پیسا اس کے لئے اہمیت نہیں رکھتا۔امریکہگوگل کے بانیوں میں سے ایک سرجے کی دولت کا تخمینہ 30.9ارب ڈالر کگایا گیا ہے۔اس کا کہنا ہے کہ اس کے والدین نے بچپن سے ہی اسے ہر حال میں خوش رہنے اور بچت کرنے کی تربیت دی ہے۔اس کا کہنا ہے کہ آج بھی وہ اپنے کھانے کی پلیٹ بالکل صاف کرتا ہے،چیز خریدنے سے قبل اس کی قیمت دیکھتا ہے اور بہت سوچ سمجھ کر پیسا لگاتا ہے۔ان تمام باتوں کے باوجود اگر اسے فلاحی کاموں کے لئے رقم لگانی ہوتو وہ بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لیتا ہے۔اوپر جو مثالیں بیان کی گئی ہیں، یہ سب غیر مسلم افراد کی ہیں، ان میں سے بیشتر وہ ہیں جوکسی مذہب پر یقین نہیں رکھتے لیکن اس کے باوجود عیاشی پر سادگی کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ یہ فطرت کا تقاضا بھی ہے جبکہ دوسری جانب ہم مسلمان ہیں، ہمارا اسلام تو سادگی کی دعوت دیتا ہے اور اسلام کی سب سے بڑی خوبی ہی سادگی بتائی گئی ہے۔ کوئی بھی اچھی چیز ہمیشہ ’’اوپر‘‘ سے شروع ہوتی ہے۔ حکمران اور سرمایہ دار طبقات سادگی اختیار کریں تو عوام پر بھی اس کا اثر ظاہر ہوگا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے وطن پاکستان میں جتنے بھی حکمران آئے ان میں سے کسی نے بھی سادگی کو اپنانے کی کوشش نہیں بلکہ جیسے جیسے ملک آگے بڑھتا گیا ہمارے حکمرانوں کے اندازِ حکمرانی میں سادگی کی بجائے نمودونمائش اور تعیشات میں اضافہ ہی ہوتا رہا۔ آج صورتِ حال یہ ہے کہ ہمارے وزرا کا جہاں سے گزر ہوتا ہے اس راستے پر کرفیو جیسا سماں ہوتا ہے سوائے پولیس کی نفری، سرکاری گاڑیوں اور پروٹوکول آفیسر کے کچھ نہیں ہوتا۔ حیرت اس بات پر ہے ان گاڑیوں میں بیٹھے ہوئوں کو باہر کی دنیا میں کیا ہورہا ہے کچھ نظر نہیں آتا۔ دنیا میں اور بھی سربراہان ہیں جو ایک شہر سے دوسرے شہر یا اپنے ہی شہر میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہیں وہاں اس طرح نہیں ہوتا۔یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں عوام خوشحال ہیں اور پاک وطن میں حکمرانوں اور ان وزرا کے عیاش ہونے کی وجہ سے عوام غربت کی آخری لکیر پر ہیں حالانکہ ہمارے حکمران تو اس عمر ابنِ خطابؓ کے نام لیوا ہیں جن کے پاس بسا اوقات دو کپڑے بھی نہیں ہوتے تھے۔ ایک دفعہ نماز میں دیر ہوگئی۔ آپ نے پیغام بھجوایا: ’’میرے پاس اس وقت ایک ہی جوڑا ہے اور وہ سوکھ رہا ہے۔ کچھ دیر میں خشک ہوجائے گا تو پھر آکر امامت کرائوں گا۔ کچھ دیر انتظار کریں۔‘‘آپ رضی اللہ عنہ دنیا کی سب سے بڑی سلطنت میں عدل وانصاف کا بہترین قائم کرنے کے باوجود خوفِ خدا سے لرزتے رہتے اور کہتے: ’’اگر دریائے فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک سے مرجاتا ہے تو قیامت کے دن عمر سے پوچھ ہوگی اور بسا اوقات سوز بھری آواز میں کہتے: ’’اگر آسمان سے آواز آئے کہ دنیا کے تمام انسانوں کے گناہ بخش دیئے گئے سوائے ایک شخص کے… تو میں یہی سمجھوں گا کہ وہ میں ہی ہوں۔‘‘
ایک دفعہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کی بیوی ان کے کمرے میں داخل ہوئی تو وہ نماز میں زاروقطار رورہے تھے اور آنکھوں سے آنسو موتیوں کی طرح ٹپک رہے تھے۔ جب نماز پڑھ چکے تو آپ کی اہلیہ نے پوچھا: ’’کیوں رورہے تھے؟‘‘ کہنے لگے: ’’میں نے خلافت قبول کرکے اپنے اوپر بوجھ لاد لیا ہے اور اب میری ذمہ داری میں شامل ہوگیا ہے کہ میں اتنے بڑے علاقے کے غریبوں، مسکینوں اور حاجت مندوں کی تمام ضرورتیں پوری کروں۔ اگر کسی کی حاجت وضرورت پوری نہ کرسکوں تو اللہ کے ہاں جواب دہ ہوں گا۔ یہ اتنا بڑا بوجھ کا خیال مجھے ہر وقت رُلاتا ہے۔‘‘
اگر آج کے ہمارے اربابِ حل وعقد کل کے عظیم مسلم حکمرانوں کے سنہرے اُصولوں پر چل کر سادگی، غریب پروری، خدمت خلق اور ایمان داری کو اپنا شیوہ بنالیں تو یقینا فلاحِ دارین حاصل کرسکتے ہیں،لیکن شاید ان سے یہ توقع محال ہے کیونکہ فرعونیت کا غرور اس وقت پاش پاش ہوتا ہے جب کوئی موسیٰ آئے۔ دیکھتے ہیں کب کسی موسیٰ کا ظہور ہوتا ہے؟


.