تعلیمی معیار 60:سال پیچھے کیوں؟

September 09, 2016

مختلف ادوار میں اصلاحات کے نام پر کئے جانے والے اقدامات کے باوجود پاکستان کا نظام تعلیم ابھی تک قومی توقعات پر پورا نہیں اتر سکا اور وطن عزیز آج بھی شرح خواندگی کے اعتبار سے قوموں کی برادری میں بہت پچھلی صفوں میں کھڑا ہے عمومی رائے یہ ہے کہ یہ نظام محض کلرک اور منشی پیدا کرتا ہے یا معاشرے میں طبقاتی تفریق بڑھاتا ہے اہل علم کے نزدیک اس رائے پر بحث مباحثے کی یقیناً گنجائش ہو گی مگر اقوام متحدہ نے جو تازہ رپورٹ جاری کی ہے اس میں ہماری تعلیمی زبوں حالی کی قلعی کھول کر رکھ دی گئی ہے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کا تعلیم نظام جدید دور کے تقاضوں سے 60سال پیچھے ہے جبکہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں نہ صرف شرح خواندگی کم ہے بلکہ تعلیم بھی معیار کے مطابق نہیں پرائمری سطح پر دی جانے والی تعلیم قدرے بہتر یعنی نئے دور کے تقاضوں سے 50سال پیچھے ہے جبکہ سیکنڈری سطح پر یہ معیار 60سال پیچھے ہے اگرچہ یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں دنیا کے کئی دوسرے ممالک بھی اس فہرست میں شامل ہیں لیکن یہ واحد ایٹمی ملک ہے جس کا نظام تعلیم اتنا پست ہے رپورٹ کے مطابق 50لاکھ بچے اسکول جاتے ہی نہیں اور ایک کروڑ 4لاکھ بچے سیکنڈری اسکول کی سطح سے آگے نہیں جاتے پھر شہروں اور دیہات میں بسنے والے والدین کے بچوں میں تعلیمی معیار کے اعتبار سے بہت فرق ہے اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ حکومت اپنے اخراجات کا محض 11.3فیصد تعلیم پر خرچ کرتی ہے اگرچہ دہشت گردی اور بےامنی بھی ایک وجہ ہے جس سے تعلیمی اداروں میں بچے اور اساتذہ عدم تحفظ کا شکار ہیں اور تعلیم پر پوری توجہ نہیں دے پا رہے لیکن طبقاتی نظام تعلیم کا فروغ معیاری تعلیم کی راہ میں زیادہ بڑی رکاوٹ ہے پاکستان میں اس وقت تعلیمی لحاظ سے تین طرح کے نظام ہیںایک نظام دینی مدارس کا ہے جن میں سائنس کی تعلیم نہیں دی جاتی دینی مدارس کا نظام تعلیم کے عصری تقاضوں پر پورا نہیں اترتا یہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے نوجوان زیادہ تر مساجد میں امام یا خطیب بنتے ہیں ان کے لئے روزگار کے مواقع بہت محدود ہیں دوسرا نظام آکسفورڈ اور کیمبرج والا ہے یہ انگریزی میڈیم اسکول گرائمر کے تقاضے تو پورے کرتے ہیں مگر ایک تو ہمارے عمومی مزاج سے مطابقت نہیں رکھتے دوسرا یہ بہت مہنگے ہیں بھاری فیسوں کی وجہ سے عام آدمی یہاں اپنے بچوں کو داخل کرانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تیسرا نظام سرکاری اسکول ہیں جن کا ذریعہ تعلیم اردو ہے سرکار ان پر پوری طرح توجہ نہیں دیتی جس کی وجہ سے ان میں تعلیمی سہولتوں کا افسوسناک حد تک فقدان ہے۔ اساتذہ بھی ضرورت کے مطابق نہیں جو ہیں ان میں سے بھی اکثر صرف حاضری لگوانے آتے ہیں۔ پڑھاتے نہیں، نگرانی کا نظام کمزور ہونے کی وجہ سے پڑھائی نہ ہونے کے برابر ہے، یہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے بچے انگریزی میڈیم اسکولوں کے تعلیم یافتگان کا مقابلہ نہیں کر سکتے اس لئے مقابلے کے امتحانات میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اس طرح تعلیم جس کا مقصد طبقاتی تفریق کو ختم کرنا ہے، یہ تفریق مزید بڑھاتی چلی جا رہی ہے، ایک اور بڑا مسئلہ نصاب تعلیم ہے جو عصری تقاضوں کے مطابق نہیں ۔ آج بھی سرکاری اسکولوں میں 50سال پرانا نصاب پڑھایا جا رہا ہے کوئی تبدیلی کی جائے تو بھی مواد تقریباً وہی رہتاہے، ترتیب اور تشکیل بدل دی جاتی ہے ترقی یافتہ ملکوں میں ریسرچ ادارے قائم ہیں جن کی تحقیق کی بنیاد پر تقریباً ہر سال نصاب میں ردو بدل ہوتا رہتا ہے۔ پاکستان میں بھی ایسے ادارے قائم ہیں مگر عملی طور پر ان کا کام سامنے آتا ہے نہ تعلیمی نظام پر اس کے اثرات نظر آتے ہیں۔ بعض صوبوں نے اپنے طور پر تعلیمی بہتری کے لئے کچھ اقدامات کئے ہیں مگر ان کا دائرہ محدود ہے حکومت کوچاہئے کہ اس ساری صورت حال کا مکمل جائزہ لے اور تعلیمی نظام کوجدید ترین تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کے لئے جامع اصلاحات لائے تاکہ ملک اکیسویں صدی کے تقاضوں کے مطابق ترقی کی دوڑ میں آگے بڑھ سکے۔
.