سانحہ بلدیہ ٹائون کو چار سال گزر گئے

September 11, 2016

کراچی کے علاقے بلدیہ ٹائون میں واقع علی انٹرپرائزز میں چارسال پہلے تک مشینوں کا شور سنائی دیتا تھا،پھر ایک خوفناک آگ نے 260 لوگوں کو زندہ جلادیا، واقعے کوچار سال گزر گئے، جے آئی ٹی میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ بھتہ نہ دینے پر سیاسی جماعت کے عہدیدار کے کہنے پر فیکٹری کو آگ لگا ئی گئی لیکن تاحال مرکزی ملزمان قانون کی گرفت سے باہر ہیں۔

11ستمبر 2012کی شام حب ریور روڈ پر واقع علی انٹرپرائزز میں خطرناک آگ 260گھرانوں کے چراغ گل کر گئی ، خواتین سمیت فیکٹری میں کام کرنے والے 260مزدوروں کے زندہ جل جانے کے واقعے کا مقدمہ پہلے سائیٹ بی تھانے میں فیکٹری مالکان، سائیٹ لمیٹڈ اور سرکاری اداروں کے خلاف درج کیا گیا ، مختلف تحقیقاتی کمیٹیاں بھی بنیں اور جوڈیشل کمیشن بھی قائم کیا گیا لیکن کسی نتیجے پر نہیں پہنچا جاسکا،نہ ہی کوئی گرفتاری عمل میں آئی۔

6فروری 2015 کو عدالت میں رینجرز نے ایک رپورٹ جمع کروائی جس میں بتایا گیا کہ کلفٹن سے ناجائز اسلحہ کیس میں گرفتار ملزم رضوان قریشی نے دوران تفتیش انکشاف کیا کہ فیکٹری میں آگ لگی نہیں بلکہ لگائی گئی تھی اور اس کی وجہ فیکٹری مالکان سے مانگا گیا 20کروڑ روپے کا بھتہ تھا۔

ملزم رضوان قریشی کی جے آئی ٹی رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ فیکٹری کو آگ لگانے میں سیاسی جماعت کے عہدیدار ملوث ہیں اور حماد صدیقی نے بھتہ نہ دینے پر رحمان عرف بھولا کو آگ لگانے کا حکم دیا جس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر کیمیکل ایک ڈرم میں بھرا اور پھر فیکٹری کا مرکزی دروازہ بند کر کے آگ لگا دی گئی۔

تفتیش میں اس نئے موڑ کے بعد ڈی آئی جی سلطان خواجہ کی سربراہی میں ایک نئی جے آئی ٹی بنائی گئی جس نے دبئی میں جاکر فیکٹری مالکان سے تفتیش کی جنھوں نے اس بات کا اقرار کیا کہ ان سے بھتہ مانگا گیا تھا، جس کے بعد جے آئی ٹی نے اس بھیانک ترین دہشتگردی کا مقدمہ اس میں ملوث ملزمان کے خلاف درج کرنے کا حکم دیا تاہم ابھی تک نیا مقدمہ درج نہیں کیاجاسکا ہے، نہ ہی اس واردات میں ملوث ملزم زبیر عرف چڑیا کے علاوہ کوئی اور ملزم گرفتار کیا جاسکا ہے۔