قومی قیادت کے عزم نو کو سلام

January 07, 2015

پچھلے برس APC میں ہماری سیاسی قیادت نے دہشت گردی کے خلاف جومو قف اختیار کیا تھا اس سے ہمیں مایوسی ہوئی تھی جس کی تلملاہٹ ہمارے اس وقت کے کالموں سے عیاں تھی۔ ہماری تمنا تھی کہ میڈیا، آرمی اور سیاسی قیادت دہشت گردی کے خلاف دوٹوک اور واضح مئوقف اختیار کرتے ہوئے وطنِ عزیز سے اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں ۔الحمدللہ آج 2015کا آغاز اس طرح ہو رہا ہے کہ دہشت گردی و انتہا پسندی کے خلاف قوم کے تمام ذمہ دار طبقات یکسو ہو کر ایک پیج پر کھڑے ہونے کا عندیہ ظاہر کر رہے ہیں ہم بشمول وزیراعظم تمام سیاسی و عسکری قیادت کو سلام پیش کرتے ہیں اس امید کے ساتھ کہ وہ اپنے اس دو ٹوک موقف میں نہ صرف یہ کہ استقامت کا مظاہرہ کریں گے بلکہ شدت پسند دہشت گرد پیدا کرنے والے تمام سر چشمے، سوتے اور سوراخ بند کرنے میں بھی اسی یکسوئی کا مظاہرہ فرمائیں گے۔ انسداد دہشت گردی کیلئے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کیلئے اعلیٰ سطحی کمیٹی کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم نوازشریف کے یہ الفاظ کس قدر واضح ہیں ’’سانحہ پشاور کے بعد پاکستان بدل چکا ہے دہشت گردوں کے خاتمے کا ناقابلِ واپسی مرحلہ شروع ہو چکا ہے اب اگر دہشت گردی کا خاتمہ نہ کیا تو خدانخواستہ یہ ملک نہیں بچے گا۔ عوام پر ہر طرح کا تشدد دہشت گردی تصور ہو گا دہشت گردوں،ان کے سہولت کاروں، معاونین یا انہیں پناہ دینے والوں میں کوئی امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا۔ دہشت گردی اور فرقہ واریت پاکستان کیلئے کینسر ہے وزیرستان آپریشن کا دائرہ پورے ملک تک پھیلایا جائے گا‘‘۔ وزیراعظم نے کہا کہ ’’اب ان دہشت گردوں سے فیصلہ کن جنگ ہوگی جنہوں نے ہزارہ ٹائون کوئٹہ یا پشاور چرچ میں بے گناہوں کا خون بہایا ایک ضربِ عضب آپریشن وہ ہے جو قبائلی علاقوں میں لڑا جا رہا ہے دوسرا پورے ملک کے شہروں میں جاری کر دیا گیا ہے دہشت گردوں کے خلاف جنگ ان کی پناہ گاہوں تک لے جائیں گے‘‘۔ وزیراعظم کے علاوہ آرمی چیف نے بھی اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ’’دہشت گردی کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے پاکستان کو محفوظ ملک بنائیں گے فوج اور ایجنسیاں نیشنل ایکشن پلان پر فوری عمل کریں دہشت گردوں کے خلاف سیاسی قیادت کا غیر متزلزل عزم قابل تحسین ہے ہم قوم کے اعتماد پر پورا اتریں گے‘‘۔
ہمیں خوشی ہے کہ فوجی عدالتو ں کے حساس معاملے کو بھی بہتر حکمت عملی ،اعتدال پسندی، خوش اسلوبی اور قومی اتفاق رائے کے ساتھ حل کر لیا گیا ہے اس کا کریڈٹ جہاں وزیراعظم اور ان کی ٹیم کو جاتا ہے وہیں پی پی، ایم کیو ایم اور ق لیگ کی قیادت بھی شکریے کا استحقاق رکھتی ہے۔ یہاںہم اتنی وضاحت کرنا ضرور چاہیں گے کہ بلاشبہ فوجی عدالتوں کا قیام جمہوری سوچ سے ہم آہنگ نہیں ہے لیکن غیر معمولی حالات میں اس غیر معمولی اقدام کا جواز موجود ہے اور قد آور مہذب جمہوری ممالک میں ایسی مثالیں موجود ہیں بلکہ ہم اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر عرض کریں گے کہ ان مہذب جمہوری ممالک کی قانونی نرم روی، جمہوریت نوازی اور انسانی حقوق سے وابستگی کا دہشت گردوں نے عالمی سطح پر ہمیشہ ناجائز فائدہ اٹھایا ہے مغربی ممالک کی اسی نرم روی سے مستفید ہوتے ہوئے دہشت گردی کو پھلنے پھولنے کے اسی طرح مواقع حاصل ہوتے چلے آرہے ہیں جس طرح ہمارے عوام کی اسلام پسندی سے ان ظالمان نے ہمیشہ ناجائز طور پر طاقت پکڑی ہے اور یہی طاقت بے گناہ انسانوں کی بربادی کا باعث بنی ہے۔ہم نے کبھی شدت پسندوں کی نیتوں پر حملہ نہیں کیا شک کا فائدہ بھی ہمیشہ انہیں دیا ہے لیکن کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہونا چاہئے کہ وہ دوسروں پر اپنا نظریہ یا عقیدہ مسلط کر سکے اور ایسا محض آزادیء اظہار کی فضا میںہی ممکن ہے۔ ہماری بشمول وزیراعظم وطنِ عزیز کی سیاسی و عسکری قیادت سے گزارش ہے کہ آپ لوگ اس وقت دہشت گردی کے خلاف جو بلند بانگ دعوے کر رہے ہیں یہ سب محض بڑھکیں بن کر رہ جائیں گے اگر آپ نے شدت پسندی کے سر چشمے اور سوتے کنٹرول نہ کیے۔ آپ ہیروئن یا افیون کی روک تھام کیلئے جتنے مرضی قوانین بنا لیں اس کی خرید و فروخت پر سخت ترین سزائیں دے لیں لیکن اگر آپ ان کھیتوں کھلیانوں پر ہاتھ ڈالتے ہوئے ڈرتے ہیں جہاں افیون کاشت ہوتی اور اس کی لہلہاتی فصل تیار ہوتی ہے تو اس کا خاتمہ محض ایک ایسا خواب رہے گا جو کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔
ہم پورے وثوق اور شرح صدر سے یہ عرض کیے دیتے ہیں کہ اگر آپ نے پاکستان کو اقوام عالم میں باوقار مقام دلوانا ہے تو آپ کو یہ کڑوی گولی ایک نہ ایک دن کھانی پڑے گی آپ کو نظریاتی نعروں اور پالیسیوں کی سرپرستی سے دستبردار ہو کر وطنِ عزیز میں لبرل اپروچ کی یتیمی دور کرنی پڑے گی۔ ریاست کو مذہبی غیر جانبداری کی اس پالیسی کو اپنانا پڑے گا جو بانی پاکستان کی پالیسی ہے۔ واعظین و مقررین جیسی چاہیں زبان مبارک استعمال فرمائیں نسلِ نو کے اذہان بگاڑیں اور ریاست خاموش تماشائی بنی رہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ وطنِ عزیز میں لبرل سول سوسائٹی انتہائی کمزور ہو چکی ہے شدت پسند مضبوط جتھوں کے بالمقابل ان بیچاروں کے پاس اکثریتی ووٹ کے علاوہ کوئی طاقت نہیں ہے مت بھولیں یہاں دہشت گردوں سے بھی زیادہ مضبوط ان کے وہ حمایتی ہیں۔ جو ہمارے گلی محلوں میں موجود ہیں اور مذہب کے مقدس نام پر استعمال ہو رہے ہیں یہاں ایسے عالمان موجود ہیں جو کھلے بندوں فرمارہے ہیں کہ جس طرح امریکہ نے نائن الیون کروایا تھا تا کہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو کچلا جا سکے اسی طرح پاکستان میں سانحہ پشاور بھی مخصوص مقاصد کے تحت کروایا گیا ہے تا کہ پاکستان کی دینی قوتوں کو کچلا جا سکے۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ ایسی کہانیاں سنانے والوں کا اشارہ آخر کس جانب ہے؟یہ الزام تراشی کس کے خلاف کی جارہی ہے؟ اور یہ کن مجرموں کو بچانے کی کاوش ہے ؟
اب اگر ہماری آنکھیں نہ کھلیں تو کب کھلیں گی؟ وزیراعظم صاحب! یہاں ضرب عضب سے بھی زیادہ فکری تطہیر اور نظری بالیدگی کی ضرورت ہے اور یہ فریضہ آزادی اظہار کی فضا میں میڈیا اور تعلیمی نصاب میں بہتری کے ذریعے ہی سرانجام دیا جا سکتا ہے آج ہماری عسکری و سیاسی قیادت نے تیور بدلے ہیں توہماری جماعت اسلامی نے بھی اپنی قتالی سوچ میں تبدیلی کا اعلان کر دیاہے جس پر ہم انہیں بھی مبارکباد پیش کرتے ہیں۔