حاکم وقت کا حکم اور بھارت …

September 25, 2016

یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر تاریخ کے جھروکوں میں جھانک کر دیکھیں تو عبرت کے ان مٹ ہزاروں نشان موجود ہیں۔بے شمار تمثیلات اور ان گنت مثالیں موجودہیں مگر کیا کروں کہ یہ بھی تاریخ کا سبق ہے کہ کوئی تاریخ سے نہیں سیکھتا اور تاریخ ہمیشہ خود کو دہراتی ہے۔دوسرے خلیفہ وقت حضرت عمر ؓ کا دور جب عروج پر تھا اور اسلامی فتوحات کا سلسلہ جاری تھا ۔حضرت خالدؓ بن ولید سپہ سالار کی حیثیت سے اسلامی لشکر کی کمان سنبھالے ہوئے تھے اور جہاں سے خالد بن ولیدؓ کا لشکر گزرتا تھا ،اسلامی پرچم لہرا دیا جاتا تھا۔اسلام کو نصیب ہونے والی فتوحات کے ساتھ یہ تاثر بھی شدت سے ابھرا کہ یہ کامیابیاں حضرت خالد بن ولیدؓ کی وجہ سے مل رہی ہیں۔اصل طاقت خالد بن ولید ؓ کی سپہ سالاری ہے۔ صورتحال کو دیکھتے ہوئے خلیفہ وقت حضرت عمرؓ نے حکم دیتے ہوئے پیغام بھجوادیا کہ خالدؓ جیسے ہی تمہیں میرا یہ حکم ملے،تم جس حالت میں بھی ہو،کمان چھوڑ دینا۔تاریخ کی کتابوں میں درج ہے کہ جب حضرت خالد بن ولیدؓ کو حاکم وقت کا پیغام ملا تو وہ اس وقت جنگ لڑ رہے تھے ۔انہوں نے اسی حالت میں کمان عمرو بن العاصؓ کے حوالے کردی۔اس دن خالد بن ولیدؓ نے عام فوجی کی حیثیت سے جنگ لڑی اور 9تلواریں توڑ دیں۔ساتھیوں نے پوچھا کہ خالدؓ آج آپکو کیا ہوا ہے۔تو انہوں نے جواب دیاکہ لوگ یہ نہ کہیں کہ خالدؓ اپنی سپہ سالاری کی وجہ سے جذبے سے لڑتا تھا،میں ہمیشہ اسلام کے سپاہی کی حیثیت سے میدان میں اترتا ہوںاور آج میں نے اس کو ثابت کیا ہے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ فرد نہیں بلکہ مملکت اہم ہوتی ہے۔
اسی طرح ایک اور واقعہ ہماری برصغیر پاک و ہند کی تاریخ کا ہے جب محمد بن قاسم نے راجہ داہر کو شکست فاش سے دو چار کیا اور دیبل فتح کرکے برصغیر میں اسلامی پرچم گاڑ دیاتو اس دوران خلیفہ تبدیل ہوگئے اور سلمان بن عبدالمالک نئے خلیفہ بنے۔تاریخ دان لکھتے ہیں کہ وہ ایسا وقت تھا جب محمد بن قاسم کی مقبولیت آسمانوں کو چھو رہی تھی۔خواتین نے محمد بن قاسم کی شکل کی مورتیاں بنا کر اس کی پوجا شروع کردی تھی کہ یہ عام انسان نہیں بلکہ بھگوان کا اوتار ہے ۔مگر پھر حاکم وقت کا حکم جاری ہوا کہ محمد بن قاسم جیسا ہے اور جہاں ہے واپس لوٹ آئے۔ یہاں تک کہا گیا کہ اگر ہوسکے تو محمد بن قاسم کو گرفتار کرکے لایا جائے۔کہتے ہیں کہ جب عرب سے فوجیں محمد بن قاسم کو گرفتار کرنے کے لئے پہنچیں تو محمد بن قاسم کو فوج کے سینئر جرنیلوں نے مشورہ دیا کہ برصغیر میں آپکی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ مائیں آپکو مسیحا سمجھتی ہیں۔اگر آپ ایک دفعہ اعلان بغاوت بلند کردیں تو برصغیر کا بچہ بچہ آپکی حفاظت کرے گا اور عرب فوجوں کے پرخچے اڑادے گا۔کسی نے یہاں تک کہا کہ آپ برصغیر میں نئی خلافت کا اعلان کردیں۔جس پر محمد بن قاسم نے جو جواب دیا ،آج بھی وہ تاریخ کے سینے میںمحفوظ ہے۔محمد بن قاسم نے کہا کہ "میں ایک جان کی خاطر اسلامی مملکت کو دوحصوں میں تقسیم نہیں کرسکتا"اور خاموشی سے گرفتاری دے کر حاکم وقت کا فیصلہ تسلیم کیا۔تاریخ بتاتی ہے کہ شہرت کا یہ عالم تھا کہ جب محمد بن قاسم کو گرفتار کرکے گھوڑوں پر لیجایا جارہا تھا تو گھوڑوں کے گھٹنے پھولوں کی پتیوں میں دبے ہوئے تھے،ماؤں،بہنوں ،بیٹیوں ،بچوں،بزرگوں نے اس قدر پھول نچھاور کئے کہ شاید ہی برصغیر کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال ملتی ہو۔مگر محمد بن قاسم نے شہرت اور مقبولیت کے سحر میں آکر حاکم وقت کی حکم عدولی نہیں کی اور گرفتاری دے دی ۔مگر تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ جب کسی نے حاکم وقت کی حکم عدولی کی تو پھر تاریخ نے وہ منظر بھی دیکھا کہ اسلامی ریاست کو کتنا بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔اسلامی مملکت کے ایک خلیفہ نے شام کے گورنر کو حکم جاری کیا کہ عہدہ چھوڑ کر مستعفی ہوجاؤ ۔ مگر انہوںنے حاکم وقت کا حکم ماننے سے انکار کردیا۔پھر سب کے سامنے ہے کہ کیسے اسلامی ریاست پہلی بار خلافت سے ملوکیت میں داخل ہوئی اورپھر کیا کیا ہوا؟ یہ سب واقعات تحریر کرنے کا مقصد حاکم وقت کے حکم کی اہمیت کو واضح کرنا ہے۔آج وطن عزیز آزمائشی حالات سے گزر رہا ہے۔روایتی حریف بھارت کے ساتھ صورتحال انتہائی کشیدہ ہے مگر پوری قوم ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند کھڑی ہے۔جنگ کے خدشات کو خارج ازامکان نہیں کہا جاسکتا مگر معروضی حالات بتاتے ہیں کہ بھارت ایسی سنگین غلطی نہیں کرے گا۔ویسے تو پاک فوج کے موٹر وے پر فراٹے بھرتے ہوئے طیاروں کی گونج بھی مودی سرکار نے سن لی ہوگی مگر ہمیں ہر خطرے سے نبر د آزما ہونے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ایک طرف ساری صورتحال میں ہمارا روایتی دشمن بھارت اپنے وزیراعظم کی سربراہی میں اہم اجلاس کررہا ہے۔وزیر دفاع اپنے آرمی چیف ودیگر سروسز چیف کو حکم جاری کررہے ہیں۔جس کی خبریں اور تصاویر تمام بین الاقوامی اخبارات میں چھپ چکی ہیں ۔مگر ہمارے پاکستان میںایک موثر رائے سامنے آرہی ہے کہ جنگ کی کیفیت میں سپہ سالار تبدیل نہیں ہوتے اور پاکستان اس وقت جنگ کی صورتحال کا سامنا کررہا ہے۔بھارت سے کشیدگی کو مدت ملازمت میں توسیع سے منسوب کیا جارہا ہے۔جو بہر حال ملک کے لئے درست نہیں ہے۔فرد کبھی بھی ریاست سے بالاتر نہیں ہوتے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم سب کو جنگ کے خدشات کو کم کرنا چاہئےاور جتنا ہوسکے جنگ سے خود کو دور رکھیں ۔لیکن اگر ایسی صورتحال پیدا ہوگئی اور واقعی ہم پر جنگ مسلط کردی گئی تو پھر یہ توسیع ،سویلین بالادستی سمیت تما م معاملات پیچھے رہ جاتے ہیں۔اللہ نہ کرے کہ ہم جنگ کی کیفیت میں جائیں۔لیکن اگر ایسا ہوا تو پھر دنیا دیکھے گی کہ جذبوں سے جنگ لڑی کیسے جاتی ہے؟ہمیں جنگ سے ڈرانے والی دنیا سن لے کہ جب پاکستانی قوم نکل آئی تو پھر مہذب دنیا کی نام نہاد عالمی طاقتیں منہ میں انگلیاں دبائے بیٹھی ہوں گی۔
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی چاہئے کہ ہر کشیدگی کو اپنی خواہش کی تکمیل کے مطابق مت ڈھالیں۔جب کہ اپوزیشن سمیت متحرب قوتوں کی طرف سے ایک تاثر یہ بھی دیا جارہا ہے کہ جب بھی نواز شریف حکومت پر برا وقت آتا ہے تو فوری طور پر بھارت کا سرحدوں پر دباؤ بڑھ جاتا ہے اور یہ صورتحال صرف اکتوبر اور نومبر گزارنے کے لئے ہے ،تاکہ ادارے بھارت کے ساتھ سرحدوں پر مصروف رہیں اور کسی اقدام کا وقت نہ مل سکے۔میری ذاتی رائے میں یہ دونوں تاثر دینا اور پھر عوامی رائے بنانا مناسب نہیں ہے۔نوازشریف،آصف زرداری اور عمران خان سمیت کسی بھی شخص کی حب الوطنی پر انگلی اٹھانے کی ہرگز اجازت نہیں دی جاسکتی۔ یہ تو نوازشریف کے بدترین مخالف جنرل(ر) مشرف نے بھی کچھ ہفتے قبل ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ نوازشریف کی حب الوطنی پر شک نہیں کیا جاسکتا۔یہ وہ وقت ہے کہ جب حکومت،فوج اور اپوزیشن کو متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ذاتی اختلافات،اختیارات کی جنگ،توسیع کے معاملات اور دھرنا سیاست کو پس پشت ڈال کر پاکستان کے لئے سوچنے کا وقت ہے۔ہر صورت حاکم وقت کا حکم اول ہونا چاہئے۔ ریاست کا چیف ایگزیکٹو وزیراعظم پاکستان ہے اور تمام اداروں اور قوتوں کو اس کے پیچھے کھڑا ہوکر وطن عزیز کا دفاع کرنا چاہئے۔کیونکہ پاکستان نہیں تو پھر کچھ بھی نہیں،کچھ بھی نہیں۔

.