بلاول بھٹوکی سالگرہ اور لاچار مریض

September 25, 2016

’’اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے نامزد نائب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اس بات پر برہم تھے کہ جنگ بندی کی باتیں کیوں کی جا رہی ہیں، چنانچہ گورنر مشرقی پاکستان ڈاکٹر اے ایم مالک کی جنگ بندی کی ایسی ہی ایک کوشش پر مبنی مراسلےپر 13دسمبر کو راولپنڈی میں حکومت پاکستان کے ایک ترجمان نے ایک پریس کانفرنس میں جنگ بندی کی تجویز کی تردید کر دی۔ جنرل یحییٰ خان غالباً امید لگائے بیٹھے تھے کہ مزید مہلت ملنے سے بھٹو کوئی سفارتی معرکہ انجام دے لیں گے۔
(بھٹو صاحب چونکہ 1971کی جنگ میں امریکہ اور چین کو پاکستان کی مدد کیلئے راضی کرنے کی لن ترانی کر چکے تھے اس لئے) راولپنڈی نے یہ انوکھی ترکیب نکالی کہ ڈھاکا کو یہ اطلاع دی کہ بین الاقوامی سطح پر وسیع پیمانے پر عملی امداد حاصل کی جا رہی ہے ہمارے زرد دوست شمال سے اور سفید دوست جنوب سے مداخلت کرنے والے ہیں، زرد دوستوں سے مراد چینی تھے اور سفید دوستوں کا اشارہ امریکہ کی طرف تھا جس کا بحری بیٹرہ ہندکے مشرقی کنارے پر تھا۔
جب حالات مزید بگڑتے چلے گئے تو تصدیق کیلئے ڈھاکا میں مقیم چین اور امریکہ کے نمائندوں کو الگ الگ بلا کر پوچھا گیا تو دونوں نے ایسے کسی وعدے و کارروائی سے مکمل لاعلمی کا اظہار کیا‘‘....
مذکورہ اقتباسات پاک فوج کے فرض شناس، ایماندار اور بہادر افسر مرحوم و مغفور صدیق سالک صاحب کی شہرہ آفاق کتاب ’’میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘ سے لئے گئے ہیں۔ ہماری طرح آپ بھی یہ روداد پڑھ کر متعجب و دکھی ہوئے ہوں گے کہ ہمارے سیاستدان میدان سیاست تو کیا میدان جنگ میں بھی کیا کیا شاہکار اختراعات تخلیق کرنے کے ماہر ہیں … ایسا نہیں کہ بھٹو نے یحییٰ خان جیسے تجربہ کار جرنیل کو شیشے میں اُتارلیا تھا بلکہ 1965 کی جنگ میں بھی جب پاکستان جنگ بندی کر رہاتھا بھٹو صاحب جنرل اسمبلی میں ہزار سال تک لڑنے کا اعلان کر رہے تھے …
راقم کے قلب و نظر کے سامنے یہ تحریر مقبوضہ کشمیر کی خونِ آشام صورتحال کے تناظر میں پاک بھارت تنائو کے سبب نہیں آئی ،کہ ہر پاکستانی کا ایمان ہے کہ کشمیر، کشمیریوں کا ہے اور یہ کہ ہندو بنئے سے مذاکرات بے معنی اور فیصلہ کن معرکہ ناگزیر ہے۔ سوچ اس بات پر برہم ہے کہ حالات خواہ کیسے ہی غیر یقینی یا حساس کیوں نہ ہوں، ہمارے سیاستدانوں کی نظر بہر صورت اقتدار پر ہی مرکوزرہتی ہے۔ بھٹو صاحب کی لن ترانی کا ملک کو تو کوئی فائدہ نہیں ہوا، لیکن وہ اس سےعوام کی پیٹھ پر باآسانی سوار ہوگئے۔ آپ دیکھیں کہ آج جہاں ملک دہشت گردی اور دشمن کی مداخلت سے پریشان ہے، وہاں عوام غربت کی چکی میں پڑے زندہ درگور ہیں۔ لیکن سیاستدانوں کو کرسی کی فکر ہے۔ ایک طرف اقتدار بچانے کیلئے عوامی مسائل سے صرفِ نظر ہے تو دوسری طرف کرسی کی جستجو میں ملکی سالمیت و مسائل نظر وں سے مخفی ہیں … میڈیا کا کردار بھی اس کشاکش میں کم مضحکہ خیز نہیں۔ ہم آج تک جس امریکی بحری بیڑے کی بات کرتے ہوئے امریکہ کو مطعون قرار دیتے ہیں، اس کتاب کو پڑھتے ہوئے اور دیگر حقائق سامنے آنے کے بعد یہ یقین ہو جاتا ہے کہ امریکہ نے ایسا کوئی وعدہ کیا ہی نہیں تھا … یہ ایسا شوشہ تھا، جسے ذرائع ابلاغ نےبہ وجوہ عام کیا۔ آج بھی میڈیا اُسی طرح عوام کے اصل مسائل غربت، بے روزگاری، دہشت گردی، فرقہ واریت کو طاقِ نسیاں میں رکھ کر اکثر صرف وہ واقعات وجذباتی بیانات آگے لاتا اور بڑھاتا رہتا ہے جس سے ماسوائے ملک و عوام کے نقصان کے کچھ برآمد ہونے کو نہیں ۔
کہا جاتا ہے کہ جن کے ہاتھ قوم کی کشتی ہے جب وہ ناخدا بھی جھوٹ سے باز نہیں آتا، بلکہ یہاں تک کہ جب زندگی کا ہر شعبہ کمرشلائزڈ ہو گیا ہے تو ایسےطوفان خیز عالمِ کذب وفسق میں کیونکر میڈیا کو رموزِکاروبار بالائے طاق رکھ کر صرف سچا چہرہ سامنے لانےکی تلقین کی جائے … فی زمانہ ایسے استدلال معیوب نہیں سمجھے جاتے لیکن میڈیا رائے عامہ بنانے و بگاڑنے کا وہ سرعت پذیر آلہ ہے جس کا مقابل موجود نہیں،یوں اس پر دیگر شعبوں سے کہیں زیادہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے… پیر 19ستمبر کو لانڈھی جیسے دور دراز علاقے سے ایک شخص اپنی بچی کے علاج کے سلسلے میں اپنی اہلیہ کے ہمراہ جناح اسپتال کراچی آیا، واپسی پر وہ لوگ بس کے انتظار میں اسپتال کی بیرونی دیوار کے پاس کھڑے تھے کہ دیوار ان پر گر گئی جس سے وہ شخص موقع پر جاں بحق اور بیوی و بیمار بچی شدید زخمی ہو گئیں۔ بظاہر تو یہ کوئی بڑا واقعہ نہیں لگتا لیکن اگر کوئی دیدہ و بینا یہ منظر ملاحظہ کرے تو یہ ایک واقعہ پوری مملکت خداداد پاکستان کی منظر کشی کیلئے کافی ہے … یہ غربت، غفلت اور بے رحم لوٹ مار کا اعلامیہ ہے۔ اگر لانڈھی سے جناح اسپتال تک کوئی ایک بھی ڈھنگ کا سرکاری اسپتال ہوتا تو یہ شخص کیونکر دو تین گھنٹے بسوں، منی بسوں میں بیمار بچی و بیوی کے ساتھ دھکے کھاتا اتنی دور آتا … اگر یہ دیوار جو پرانی نہیں تھی اس میں مطلوبہ میٹریل صحیح طور پر استعمال ہو چکا ہوتا تویہ کیونکر گرتی … اور اب گرنے و جانی نقصان ہونے پر کیا ذمہ داروں کیخلاف کوئی کارروائی ممکن ہو سکتی ہے ؟ اگر اس شخص کے پاس سرمایہ ہوتا تو کیا وہ راستے میں اتنے سارے اچھے پرائیویٹ اسپتال چھوڑ کر بیمار بچی اور اپنے آپ کو اذیت سے دوچار کرنے کیلئے خواہ مخواہ ناترس ڈاکٹروں و عملے کے شوق میں جناح اسپتال آتا ؟ کیا دوسروں سے سوالات کرنے والے میڈیا کے’ برق آسا‘ اہلکاروں کے گنجینہ عقل و خرد کو کبھی ایسے سوالات نےمبتلائے جستجو رکھا ہے ؟ کراچی کے دوسرے بڑے سرکاری سول اسپتال کا تو یہ عالم ہے کہ آپریشن کیلئے داخل مریض ساری رات اسٹریچر پر گزارتا ہے صبح آپریشن کے بعد اسی اسٹریچر پر پڑے علاج کے بعد واپس گھر بھیج دیا جاتا ہے۔ یہ پرانی بات نہیں، جدید و ترقی یافتہ پاکستان میں اسی ستمگر ستمبر کا واقعہ ہے۔یعنی فیض صاحب نے برسوں پہلے جس دکھ و مایوسی کا اظہار کیا تھا آج کا نقشہ بھی اسی طرح کے یاس بے لباس سے مربوط ہے۔
یا خوف سے در گزریں یاجاں سے گزر جائیں
مرنا ہے کہ جیناہے اک بات ٹھہر جائے
جی ہاں یہ کراچی کے اسی سول و جناح اسپتال کی کہانی ہے جہاں ان واقعات کے تین دن بعد جناب بلاول بھٹو کی سالگرہ کی خوشی میں دو وزیروں اور ڈھیر سارے مشیروں نے دورہ کیا اور ایک آدھ وارڈ میں تحائف بھی تقسیم کئے، اخبارات میںاس موقع کی شائع تصویر سے صاف عیاں تھا کہ مریض تو ہیں ہی بے چارگی کی تصویر، مگر وزیروں و مشیروں کے چہرے بھی دکھاوے کے ساتھ شاید یہ بھی بیاں کررہے تھے کہ ان غم کے ماروں کے ساتھ ہم یہ کیا ڈرامہ کررہے ہیں!! بجائے یہ کہ جناب بلاول ان اسپتالوں کی حالت زار بہتر بنانے کیلئے عملی اقدامات کریںوہ بھی اپنے نانا کی طرح ہزار سال تک لڑنے کے بے عمل نعروں سے ہی عوام کا دل بہلارہے ہیں۔ شاید نوخیز سیاستدان کو اپنے ابن الوقت اتالیقوں نے یہی باور کرایا ہوگا کہ عمل سے زیادہ پرکشش نعرے ہی شہرت کا باعث اور متاعِ سیاست ہیں۔ اسی دو عملی کا نتیجہ ہے کہ اس وطن کا کشادہ سینہ غریبوں پر تنگ ہورہا ہے۔ ایک بلاول بھٹو پر ہی کیا موقوف،جب بھی سالگرہ وغیرہ کا ایسا کوئی موقع آتا ہے اس ملک کی اشرافیہ یاتو ازراہ کر م خود اور یا پھر ان کے ’غلام کاتِلام‘ زرق برق لباس زیب تن کئے زخم زخم غریب کے پاس نمائش کیلئے اسپتال یا اس کی جھونپڑی میں پہنچ جاتے ہیں...سوال مگر یہ ہے کہ کیا اس سے ان بے کسوں کی دلجوئی ہوتی ہے یا دل آزاری...

.