دنیا پر پانچ ممالک ہی کی کیوں اجارہ داری ہے؟

September 28, 2016

گزشتہ ہفتے اقوا مِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 71ویں اجلاس میں دنیا کے مختلف ممالک کی حکومتوں اور ریاستوں کے سربراہان نے شرکت کی اور خطاب کیا۔ جنرل اسمبلی کے اس اجلاس میں پاکستان کی جانب سے وزیراعظم نواز شریف نے خطاب کیا تو ترکی کی نمائندگی صدر رجب طیب ایردوان نے کی۔ صدر ایردوان نے اپنے خطاب میں تمام رکن ممالک کی توجہ اقوام ِمتحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین کی جانب مبذول کرواتے ہوئے دنیا کی قسمت کے ان پانچ ممالک کے ہاتھوں میں ہونے پر اپنے شدید ردِ عمل کا اظہار کیا اور اسے غیر اخلاقی، غیر قانونی اور غیر جمہوری قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس طریقے سے مہذب دنیا کو اِن پانچ ممالک کا غلام بنا کر رکھ دیا گیا ہے اور یہ پانچ ممالک کسی دیگر ملک کو کبھی بھی اپنے مفاد کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کی اجازت تک نہیں دیتے ہیں بلکہ ان تمام قرار دادوں کو ویٹو کر دیتے ہیں جو ان کے یا ان کے حمایت یافتہ ممالک کے خلاف ہوتی ہیں۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کے مختلف اداروں میں اصلاحات کرواتے ہوئے اسے نئے سرے سے منظم کرنے کی ضرورت پر زوردیااور کہا کہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد اس وقت کے حالات کو دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ کو تشکیل دیا گیا تھا لیکن اب حالات تبدیل ہو گئے ہیں اس لئے اقوام متحدہ کو بھی اپنے آپ کو دنیا کے حالات کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ اگر اقوام متحدہ نے اپنے آپ کو حالات کے مطابق نہ ڈھالا تو پھر اقوام متحدہ سے دنیا میں امن کے قیام میں مددگار ہونے کی توقع نہیں رکھی جانی چاہیے۔ ایردوان کے مطابق اقوام متحدہ پر پانچ سُپر قوتوں نے اپنا قبضہ کررکھا ہے اور ان پانچ سُپر قوتوں میں سے ایک بھی اسلامی ملک نہیں ہے جس کی وجہ سے اقوام متحدہ اسلامی ممالک کے مسائل حل کرنے کی جانب ذرہ بھر بھی کوئی توجہ نہیں دیتی ہے۔ سلامتی کونسل آج تک اسلامی ممالک کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہی ہے اور سُپر قوتیں ہمیشہ ویٹو استعمال کرتے ہوئے ان مسائل کو آج تک الجھانے میں کامیاب رہی ہیں جبکہ اس کے بر عکس عالمِ عیسائیت کے مسائل کو حل کرنے میں اولیت دی جاتی رہی ہے۔ انہوں نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران شام کی صورتِ حال پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ’’ ترکی طویل عرصے سے شام کے ساتھ ملنے والی اپنی سرحدوں کو بفر زون قرار دینے کے لئے اپیل کرتا چلاآ یا ہے لیکن ترکی کی اس اپیل کی طرف ذرہ بھر بھی کوئی توجہ نہیں دی گئی ۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’ترکی کی شام کے ساتھ 911 کلو میٹر طویل سرحد ملتی ہے اور اس وجہ سے ترکی خود بھی جنگ کی لپیٹ میں آیا ہوا ہے۔ ہم طویل عرصے سے صبر سے کام لیتے چلے آرہے ہیں لیکن چوبیس اگست غازی انتیپ میں ایک شادی کے موقع پر ایک چودہ سالہ بچے کے ذریعے کروائے جانے والے خود کش حملے کے نتیجے میں 56 افراد کی ہلاکت اور ایک سو سے زائد افراد کےزخمی ہونے کی وجہ سے ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے اور اس کے بعد ترکی نے علاقے کے اعتدال پسند مخالفین کے ہمراہ پہلے جرابلس سے دہشت گرد تنظیم داعش کا صفایا کیا اور اس کے بعد رائی سے بھی دہشت گرد تنظیم داعش کو نکال باہر کیا اور اب مخالفین کے ساتھ مل کر علاقے پر اپنی گرفت کو مضبوط بنالیا ہےاور دریائے فرات تک کے علاقے کو دہشت گردوں سے پاک کردیا ہے اور یوں یہ علاقہ ایک امن راہداری کی حیثیت اختیار کرگیا ہےلیکن شام کے دیگر علاقے جنگ کا میدان بنے ہوئے ہیں اور اقوام متحدہ فائر بندی پر عمل درآمد کروانے سے بھی قاصر ہے جبکہ بشارالاسد انتظامیہ نے اپنے باشندوں کو موت کی وادی کی جانب دھکیلنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ اقوامِ متحدہ کب تک بشارالاسد انتظامیہ کے بارے میں آنکھیں موندے رکھے گی؟ " انہوں نے اسرائیل کے ساتھ ترکی کے بحال ہونے والے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی عوام پر ہونے والے ظلم و ستم پر کسی بھی صورت خاموشی اختیار نہیں کی جائے گی بلکہ فلسطینی عوام کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ان کو دور کرنے کی کوششوں کا سلسلہ جاری رہے گا‘‘۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کے پسماندہ ممالک کو دی جانے والی امداد میں سب سے پہلا نمبر متحدہ امریکہ اور اس کے بعد ترکی کا نمبر آتا ہے انہوں نے کہا کہ قومی آمدنی کے لحاظ سے سب سے زیادہ مدد کرنے والا ملک ترکی ہے اور دنیا میں سب سے زیادہ پناہ گزین ترکی ہی میں قیام پذیر ہیں۔
نیو یارک میں اپنے قیام کے دوران ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں پاک ترک آزادانہ تجارت معاہدے کی اہمیت کے پیش نظر اسے جلد از جلد منظور کرنے کی اہمیت پر زور دیا گیا تاکہ دونوں ملک باہمی تجارت سے بھرپور فائدہ اٹھا سکیں۔ اس موقع پر پاکستان کے وزیراعظم نوازشریف کے مقبوضہ وادی کشمیر میں بھارتی سیکورٹی فورسز کی جانب سے نہتے کشمیریوں پر ظلم وستم کی تحقیقات کے لئے اقوام متحدہ کے فیکٹ فائنڈنگ مشن بھیجنے کے مطالبے پر ترکی کے صدر ایردوان جو اسلامی تعاون تنظیم کے موجودہ چیئرمین بھی ہیں نے’’ او آئی سی‘‘ کے رابطہ گروپ کی نگرانی میں ایک وفد مقبوضہ کشمیر بھیجنے کی حامی بھرتے ہوئے کہا کہ ترکی جلد ہی ’’او آئی سی‘‘ کی انسانی حقوق کی کمیٹی کا ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن بھارت روانہ کرے گا تاکہ حقائق سے آگاہی ہوسکے اور حکومتِ بھارت کو کشمیریوں پر ظلم و ستم سے روکا جاسکے۔
دریں اثنا نیو یارک میں وزیراعظم پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے سالانہ اجلاس میں ایک بار پھر کشمیر میں ہندوستانی مظالم کا معاملہ اٹھایا۔ او آئی سی کے وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس سے خطاب میں مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ اس وقت مسلم امہ کو مختلف چیلنجز کا سامنا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہندوستانی فورسز کی فائرنگ سے 100سے زائد بے گناہ کشمیری شہید اور ہزاروں زخمی ہوچکے ہیں جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستانی فورسز کی جانب سے بلاتفریق پیلٹ گنز کے استعمال کی وجہ سے 150کے قریب کشمیری نوجوان بینائی سے محروم ہوچکے ہیں۔ اجلاس کی سربراہی کویت کے وزیر خارجہ شیخ صباح الخالد الصباح نے کی جبکہ پاکستانی وفد کی سربراہی مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کی۔مقبوضہ کشمیر میں آزادی کشمیر کے نوجوان رہنما برہان وانی کی شہادت کے بعد مقبوضہ کشمیر میں شروع ہونے والے فسادات گزشتہ چند مہینوں سے جاری ہیں جس میں ایک سو سے زائد افراد جاں بحق ہوچکے ہیں اور بھارت پورے کشمیر میں سات لاکھ فوج رکھنے کے باوجود کرفیو لگاتے ہوئےکشمیریوں کو دبانے کی کوشش میں مصروف ہے لیکن اس بار کشمیر میں لگی یہ آگ بھارت کو بھی نگل سکتی ہے۔

.