امریکہ سعودی تعلقات میں رخنہ

September 30, 2016

امریکی کانگریس نے کئی سال پرانے نائن الیون حملے کے متاثرین کو سعودی عرب پر مقدمہ کرنے کا حق دینے کے بل کے خلاف صدر اوباما کے ویٹو کو مسترد کر دیا ہے متاثرین اب اس حملے میں سعودی عرب کے ملوث ہونے اور اس سے معاوضہ طلب کرنے کے حقدار ہوں گے ایسے وقت میں بھی جب امریکہ اسلامی دنیا سے کسی نہ کسی طرح کی فوجی، اقتصادی یا تزویراتی کشمکش میں بری طرح الجھا ہوا ہے سعودی عرب نہ صرف عالم اسلام بلکہ پوری دنیا میں امریکہ کا سب سے بڑااور پرانا اتحادی ہے کانگریس کے قانون سے اس تاثر کو تقویت ملی ہے کہ عراق، لیبیااور شام کو تاراج کرنے انڈونیشیا سے مشرقی تیمور اور سوڈان سے جنوبی علاقہ الگ کرانے اور پاکستان سمیت کئی دوسرے اسلامی ملکوں کے مفادات کو زک پہنچانے کی کوششوں کے بعد امریکہ اب سعودی عرب کے پیچھے بھی پڑ گیا ہے یہ صورت حال عالم اسلام خصوصاً پاکستان کے لئے لمحہ فکریہ ہے پاکستان نے افغان جنگ میں امریکہ کا ساتھ دے کر ہزاروں انسانی جانوں اور ایک کھرب ڈالر سے زیادہ کا مالی نقصان اٹھایا مگر ایسے وقت میں جب بھارت اس کی سلامتی کے درپے ہے امریکہ کا کردار منفی اور تعجب انگیز ہے امریکی کانگریس نے جو ابتدائی بل منظور کیا صدر اوباما نے اسے ویٹو کر دیا اور کانگریس کو خبر دار بھی کیا کہ اس سے بیرونی ملکوں میں امریکی کمپنیوں، فوجیوں اور دیگر حکام کو بھی قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور یہ بھی کہا کہ ایسے وقت میں جب دنیا کو ہر جگہ شورش کا سامنا ہے امریکہ کے اہم اتحادی اس سے ناراض ہو سکتے ہیں مگر امریکی انتظامیہ نے کانگریس کے ارکان کو قائل کرنے کی کوئی موثر کوشش نہیں کی جس کی وجہ سے سعودی عرب کے خلاف قانون منظور کر لیا گیا یورپی یونین بھی خبردار کر چکی ہے کہ امریکہ کا موجودہ طرز عمل خود اس کے لئے خطرناک ثابت ہو گا امریکی انتظامیہ اور قانون سازوں کو دنیا کی واحد سپر پاور ہونے کے ناطے سعودی عرب کے خلاف مہم جوئی کو روکنا چاہئے ورنہ خود اس کے خلاف ڈرون حملوں اور دوسری کارروائیوں کی تحقیقات اور تعزیر کا دروازہ کھل سکتا ہے۔


.