احتجاج کو آئینی حدود میں رکھیں

October 12, 2016

وزیر اعظم نے گزشتہ روز اپنی جماعت مسلم لیگ (ن ) کی مجلس عاملہ کے اجلاس سے خطاب میں منفی سیاست کو قومی مفادات کے منافی قرار دیتے ہوئے اس یقین کا اظہار کیاہے کہ دھرنے والے پھر ناکام ہوں گے۔ یہ بات انہوں نے تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے تیس اکتوبر کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کو بند کردینے کے عزائم کے تناظر میں کہی۔تحریک انصاف کے قائد عمران خان پاناما لیکس میں وزیر اعظم کے اہل خانہ کے نام شامل ہونے پر وضاحت اور احتساب کا مطالبہ کررہے ہیں۔ خود وزیر اعظم نے بھی پامانا پیپرز کے منظر عام پر آنے کے فوراً بعد قوم سے اپنے خطابات میں یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ ملک سے ہر قسم کی کرپشن کے خاتمے کے خواہشمند ہیں اور ہر اس شخص کا احتساب ضروری سمجھتے ہیں جس پر بدعنوانی کا الزام ہو نیز یہ کہ پاناما پیپرز کے حوالے سے وہ سب سے پہلے اپنے اور اپنے خاندان کے احتساب کے لیے تیار ہیں۔ اس کے بعد احتساب کا طریق کار طے کرنے کے لیے پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل عمل میں آئی لیکن متعدد اجلاسوں کے باوجود حکومت اور اپوزیشن میں اتفاق نہیں ہوسکا ۔ تاہم اب یہ معاملہ الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ کے سامنے ہے۔ تقریباً دو ہفتے پہلے سپریم کورٹ اس سلسلے میں تحریک انصاف، جماعت اسلامی، جمہوری وطن پارٹی اور طارق اسد ایڈوکیٹ کی اپیلوں کو کھلی عدالت میں سماعت کے لیے منظور کرچکی ہے۔ اس کے بعد ضرورت تو اس بات کی ہے کہ تمام فریق پوری توجہ عدالتی عمل کو کامیابی سے آگے بڑھانے پر مرتکز کریں اور اپنا موقف عدالت میں ثابت کریں۔لیکن حیرت انگیز طور پر تحریک انصاف کی قیادت نے اس کے بعد بھی جارحانہ احتجاجی مہم جاری رکھی ہوئی ہے اور متعدد جلسے جلوسوں کے بعد اب اس کی جانب سے تیس اکتوبر کو اسلام آباد میں دھرنا دینے اور دارالحکومت کو سیل کردینے کے عزائم کا اظہار کیا جارہا ہے۔دوسال پہلے بھی عمران خان نے علامہ طاہر القادری کے ساتھ مل کر وفاقی دارالحکومت میں ایسی ہی کارروائی کی تھی ۔ اس وقت ان کا موقف تھا کہ 2013ء کے عام انتخابات میں منظم دھاندلی کی بناء پر عوامی رائے کا حقیقی اظہار نہیں ہوسکا لہٰذا نگراں عبوری حکومت قائم کر کے اس کے زیراہتما م دوبارہ انتخابات کرائے جائیں۔ اپنے اس مطالبے کے حقیقت بن جانے کا انہیں اس قدر یقین تھا کہ وہ اپنے دھرنے کے شرکاء کو دنوں اور گھنٹوں میں ایمپائر کی انگلی اٹھنے کی یقین دہانی کرایا کرتے تھے لیکن ان کی توقعات پوری نہ ہوئیں۔ اس کے بعد وہ انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات کے لیے چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل کمیشن کے قیام پر رضامند ہوگئے ۔ لیکن اس کمیشن نے بھی فیصلہ دیا کہ انتخابات میں منظم دھاندلی ثابت نہیں ہوئی لہٰذا پورے انتخابات کو کالعدم قرار دینے کا کوئی جواز نہیں ۔ تاہم پاناما لیکس میں وزیر اعظم کے اہل خانہ کے نام شامل ہونے پر تحریک انصاف ہی نہیں اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ وزیر اعظم یا تو اس معاملے کی اطمینان بخش وضاحت کریں یا عدالت میں جوابدہی کے لیے تیار ہوں۔ سپریم کورٹ میں وزیر اعظم کے احتساب کے لیے دائر کی گئی درخواستوں کی منظوری اور کھلی عدالت میں سماعت کے اعلان کے بعد اپوزیشن کی دوسری تمام قابل ذکر جماعتیں تو مطمئن نظرآتی ہیں لیکن عمران خان اس کے باوجود اسلا م آباد بند کرنے کے اعلانات کررہے ہیں جس کے لیے انہوں نے تیس اکتوبر کی تاریخ مقرر کررکھی ہےجبکہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کے بقول اسلام آباد سیل کرنے کا فیصلہ عوام کا نہیں عمران خان کا ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی نے بھی کہا ہے کہ شہروں کو مفلوج کرنا سیاست نہیں۔ اس طرح تحریک انصاف کی سیاسی تنہائی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جبکہ اس کی عوامی مقبولیت میں کمی کا واضح ثبوت ضمنی انتخابات میں اس کا خود اپنی جیتی ہوئی نشستوں پر پے درپے ناکام ہونا ہے۔ان حقائق کی روشنی میں تحریک انصاف کے لیے درست راستہ یہی ہے کہ اسلام آباد بند کرنے کے منصوبے بناکر آئینی و جمہوری نظام کو خطرے میں ڈالنے کے بجائے اپنے احتجاج کو آئینی حدود میں رکھے اور پاناما لیکس کے حوالے سے اپنی توجہات کا مرکز عدالت میں اپنا موقف ثابت کرنے کو بنائے۔


.