براہمداغ بگٹی کا بیان ، پس منظر و پیش منظر

August 31, 2015

نوجوان بلوچ رہنما اور بلوچ ری پبلکن پارٹی ( بی آر پی) کے سربراہ نواب زادہ براہمداغ بگٹی کے حالیہ بیان سے بلوچستان کے مسئلے پر ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے ۔ براہمداغ بگٹی نے بی بی سی کو اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ اگر بلوچ چاہیں تو وہ بلوچستان کی علیحدگی کے مطالبے سے دستبردار ہو سکتے ہیں ۔ مختلف حلقے اس بیان پر ردعمل کا اظہار کررہے ہیں ۔ پاکستان کے قومی جمہوری اور ترقی پسند حلقے اس بیان کو اس لئے خوش آئند قرار دے رہے ہیں کہ بلوچوں کی قومی دھارے میں شمولیت سے ملک میں قوموں کے حقوق اور جمہوریت کی جدوجہد کو تقویت ملے گی ۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ بلوچستان کے ناراض لوگوں کو دوبارہ قومی دھارے میں لانے کےلئے بلوچستان کے تاریخی حقائق اور بلوچوں کی اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے کثیر الجہتی اقدامات کئے جائیں۔لیکن اس کے برعکس بعض حلقوں کا ردعمل اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ بلوچستان کے مسئلے کا ادراک نہیں رکھتے۔ یہ حلقے براہمداغ بگٹی کے بیان کی یہ وضاحت کر رہے ہیں کہ بلوچ علیحدگی پسند اب مایوس ہو چکے ہیں یا انہوں نے یہ محسوس کر لیا ہے کہ ان کی تحریک کمزور ہو گئی ہے ۔ یہ حلقے بلوچستان کے مسئلے کو اس تناظر میں دیکھ رہے ہیں ، جس تناظر میں دائیں بازو کا میڈیا مسئلے کو پیش کرتا رہا ہے ۔ ان حلقوں کی طرف سے ایک بار پھر یہ تاثر بھی دیا جا رہا ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ طاقت کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے ۔
پاکستان کی موجودہ اسٹیبلشمنٹ کی بلوچستان کے بارے میں اپروچ مؤخر الذکر حلقے کی سوچ سے یکسر مختلف ہے ۔ موجودہ اسٹیبلشمنٹ بلوچستان کے حالات کو بہتر بنانے کےلئے کثیر الجہتی اقدامات کر رہی ہے اور ان اقدامات سے حالات قدرے بہتر بھی ہوئے ہیں ۔ دو تین سال پہلے بلوچستان میں لسانی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر جو قتل عام ہو رہا تھا ، اس میں بہت حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔بم دھماکوں اور دہشت گردی کے دیگر واقعات بھی کم ہوئے ہیں ۔ اس کثیر الجہتی اپروچ کے تحت دہشت گردی کے خاتمے کےلئے اقدامات کے ساتھ ساتھ بلوچستان کی ترقی کے لئے بھی اقدامات کئے جا رہے ہیں اور ناراض بلوچوں سے بات چیت کے چینلز بھی کھولے گئے ہیں لیکن کچھ حلقے اس کثیر الجہتی اپروچ پر اپنی مخصوص سوچ کا رنگ چڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ کوشش بلوچستان کے حالات کو بہتر کرنے کے اقدامات کو سبوتاژ کرسکتی ہے ۔ براہمداغ بگٹی کے بیان کو تاریخی تناظر میں سمجھنا چاہئے ۔
براہمداغ بگٹی واحد بلوچ نوجوان لیڈر نہیں ہیں ، جو بلوچستان کی علیحدگی کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ 2006ء میں ان کے دادا نواب اکبر خان بگٹی کی المناک موت کے بعد بلوچستان میں جو حالات پیدا ہوئے تھے ، ان سے بلوچوں میں شدید غم و غصہ پیدا ہوا اور براہمداغ بگٹی سمیت کئی بلوچ رہنما اس غم و غصے میں دوسری انتہا پرچلے گئے ۔ بلوچوں میں پہلے ہی احساس محرومی تھا ۔ نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ پرویز مشرف نے اپنے دور حکمرانی میں بلوچستان کے حالات کو جس نہج تک پہنچایا ، اس کی قطعاً ضرورت نہیں تھی ۔ بلوچستان کے لوگ 60 ء کی دہائی سے کسی ایک یا دوسری شکل میں مشکلات کا شکاررہے ۔ انہوں نے اپنے حقوق کے لئے طویل جدوجہد کی اور بے شمار قربانیاں دیں۔اس جدوجہد میں کبھی وہ پہاڑوں پر گئے اور کبھی میدانوں میں اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کی ۔ کبھی ان کی قیادت نے جلا وطنی کے دن گزارے اور بڑی تکالیف اٹھائیں ۔ ان کے حقوق کی جدوجہد کو طاقت سے کچلنے کی پالیسی اختیار کی گئی اور بلوچستان کے مسئلے کو ہمیشہ ’’ مس ہینڈل ‘‘ کیا گیا ۔ ایوب خان کے دور میں بلوچوں کے ساتھ دھوکا کیا گیا اور امن کے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نواب نوروز خان اور ان کے بیٹوں کو پھانسی دی گئی ۔ یہیں سے بلوچوں اور ریاست پاکستان کے درمیان اعتماد کا رشتہ مجروح ہوا ۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پھر آپریشن ہوا . حالات مزید خراب ہوتے گئے لیکن کسی نے انہیں سنبھالنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی ۔ بلوچوں نے اپنے حقوق کےلئے مسلح جدوجہد بھی کی اور جمہوری راستہ بھی اختیار کیا لیکن انہوں نے کبھی پاکستان سے الگ ہونے کی بات نہیں کی ۔ بلوچ آج بھی ترقی کے ثمرات سے محروم ہیں اور21 ویں صدی میں بھی قبائلی سماج میں رہتے ہیں ۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور قدرتی و معدنی وسائل سے سب سے زیادہ مالا مال ہے ۔ بلوچستان کا صرف سمندری ساحل اتنا بڑا وسیلہ ہے جو اس پورے خطے کو خوش حال بنا سکتا ہے ۔ بلوچوں کی ناراضی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندوستان ، افغانستان اور خلیجی ریاستوں سمیت بعض عالمی طاقتوں نے بھی اپنے اپنے مفادات کے تحت بلوچستان کی اسٹرٹیجک پوزیشن کو مدنظر رکھتے ہوئے وہاں عدم استحکام پیدا کیا اور صورت حال کو انتہائی پیچیدہ بنا دیا لیکن جب بھی بلوچوں سے مذاکرات کئے گئے، انہوں نے نہ صرف مثبت ردعمل کا اظہار کیا بلکہ پاکستان کے جغرافیے میں رہتے ہوئے اپنے جائز مطالبات پیش کئے لیکن نواب اکبر بگٹی کی المناک موت کے عظیم سانحہ کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال میں موجودہ خان آف قلات سلیمان داؤد جان نے بلوچوں کا ایک عظیم جرگہ بلایا ، جس میں بلوچستان کے علاوہ سندھ اور پنجاب کے بلوچ عمائدین کو بھی بلایا گیا تھا ۔ یہ جرگہ اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ بلوچوں کے ساتھ معاہدوں کی پاسداری نہیں کی گئی اور نہ ہی ریاست پاکستان میں بلوچوں کی بات سنی جاتی ہے ۔ جرگہ نے یہ فیصلہ کیا کہ ریاست قلات کا پاکستان سے الحاق ختم کرنے کے لئے بین الاقوامی عدالت انصاف سے رجوع کیا جائے ۔ اس جرگے کے بعد علیحدگی کی باتیں ہونے لگیں ۔ بعض لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ خان آف قلات نے جرگے میں پاکستان سے علیحدگی کے نعروں کی مخالفت کی تھی ۔ خان آف قلات کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ وفاق پاکستان میں رہنا چاہتے ہیں۔ انہیں بلوچستان کے حالات نے دوسری طرف دھکیلا۔
بلوچستان کے اس مختصر تاریخی جائزے کے تناظر میں نواب زادہ براہمداغ بگٹی کے بیان کو دیکھنا چاہئے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ پاکستان کی موجودہ اسٹیبلشمنٹ نے اپنی غیر معمولی سفارت کاری سے مغربی حکومتوں پر یہ دباؤ ڈالا ہے کہ وہ پاکستان میں دہشت گردی اور تشدد کی کارروائیاں کرنے والے لوگوں کو اپنے ہاں پناہ نہ دیں ۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ بلوچستان میں جاری آپریشن میں بہت سے لوگ مارے گئے ہیں ۔ یہ بھی درست ہے کہ خطے میں نئی صف بندی ہورہی ہے اور بلوچستان میں بیرونی قوتوں کی ’’ پراکسی وار ‘‘ کمزور پڑ رہی ہے ۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کی قیادت داخلی بحران کا شکار ہے اور ان کے درمیان حکمت عملی پر اختلافات ہیں ۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ علیحدگی پسند تنظیموں کی حامی افرادی قوت بھی خود مسائل کا شکار ہے لیکن ان تمام تر عوامل کے باوجود ہمیں بعض دوسرے حقائق پر بھی نظر رکھنی چاہئے ۔ بلوچ اپنی عزت اور وقار کےلئے فتح و شکست کو بے معنی سمجھتے ہیں ۔ یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ تمام لوگ براہمداغ بگٹی کے اس بیان سے متفق ہوں ۔ براہمداغ کے بیان کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ مذاکرات کے سوا ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں رہا ۔ نو روز خان کی شہادت اور 1973ء سے 1978ء تک 5 سال کے طویل فوجی آپریشن کے بعد بھی بلوچ مذاکرات کی میز پر بیٹھے ۔ اب اگر کوئی دوبارہ مذاکرات کی بات کر رہا ہے تو عزت و احترام کے ساتھ اس سے بات کی جائے ۔ اچھی بات یہ ہے کہ پاکستان کی موجودہ اسٹیبلشمنٹ نے تمام ناراض بلوچ رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات کے چینلز کھول رکھے ہیں ۔ خان آف قلات سے بھی دوبارہ رابطہ کرنا چاہئے ۔ ان کا موقف یہ ہے کہ وہ 2006ء والے جرگے کے فیصلے کے پابند ہیں۔ اگریہ جرگہ دوبارہ بلایا جائے اور وہ کوئی دوسرا فیصلہ کرے تو وہ اس کے بھی پابند ہوں گے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے موقف میں بھی لچک ہے ۔ بگٹی ،مینگل ،مری اور دیگر قبائل اور قوم پرست گروہوں کے ناراض بلوچوں سے بھی رابطے کئے جائیں۔ مذاکرات کے لئے وہ ماحول پیدا کیا جائے کہ علیحدگی پسند عناصر کو قومی دھارے میں آنے کےلئے ان مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے ، جو سردار اختر جان مینگل یا دیگر لوگوں کو درپیش ہیں ۔ یہ تاثر ختم ہونا
چاہئے کہ بلوچ اگر اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں تو وہ علیحدگی پسند ہیں ۔ مذاکرات سے مسائل حل کرنے پر جس طرح بلوچ سماج یقین رکھتا ہے ، اس کی مثال دنیا کے کسی دوسرے سماج میں نہیں ملتی۔ اصولوں اور انصاف کے مطابق معاملات کو طے کرنا بلوچوں کی سب سے مضبوط روایت ہے۔ بس اسی بات کو مدنظر رکھ کر بلوچستان کے مسئلے کو سمجھا جائے اور اسے حل کیا جائے۔