تبدیلی صرف اداروں کی مضبوطی سے آئے گی

September 02, 2015

آج کے انسان نے پچھلے پانچ ہزار سالہ تجربات سے جو اہم ترین سبق سیکھا ہے وہ یہ ہے کہ کوئی بھی انسان خواہ کتنا ہی مضبوط اور باصلاحیت باوسیلہ کیوں نہ ہو بہرحال فانی و ناپائیدار ہے۔ پائیداری و استحکام اگر کسی چیز کو حاصل ہے تو وہ مضبوط و مستحکم ادارے ہیں جو جتنے اعلیٰ ضوابط پر قائم ہوں گے اتنے ہی پائیدار قرار پائیں گے۔ یوں وہ ادارے اپنی اپنی اقوام و ممالک کی عظمتوں کے امین اور سربلندی و استحکام کے مظاہر گردانےجائیں گے۔ وطن عزیز کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ یہاں اداروں کی مضبوطی و تسلسل کوکماحقہ ٗ سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا رہا اور نہیں لیا جارہا۔ ہم علی وجہ بصیرت یہ سمجھتے ہیں کہ اس کو تاہی کی بڑی ذمہ داری ہمارے میڈیا کے غیرذمہ دار طبقات پر عائد ہوتی ہے۔ گراس روٹ لیول تک موجود جہالت اور غربت سے بھی ہم بے خبر نہیں ہیں۔ اگر ہماری تعلیمی پسماندگی معاشی پسماندگی جیسی نہ ہوتی تو پھر کمی کس بات کی تھی۔ جس طرح انسانی جسم میں بداحتیاطی کرنے والے کی شوگر کئی امراض کو دعوت دیتی ہے اسی طرح جسد قومی میں تعلیمی و معاشی پسماندگی، بشمول انتہاپسندی و جنونیت ایک سو ایک امراض کی بنیاد بنتی ہے ۔
بات شروع ہوئی تھی اشخاص اور اداروں میں تفاوت سے جمہوری اداروں کے مضبوط نہ ہو پانےسے مختلف النوع کھلاڑی یا مداری اس قوم کے ساتھ کیا کیا کھیل کھیلتے چلے آرہے ہیں اور قوم کو اس کی برسوں کتنی بھاری قیمت چکانا پڑی ہے یہ سب تو ہم پر واضح ہے۔ جوواضح نہیں ہے وہ یہ ہے کہ ہم اس کھیل کود سے کیسے نکلیں؟ ہمارا جواب یہ ہے کہ اپنےجمہوری اداروں کو مضبوط بنا کر ادارے مضبوط ہوں گے۔ آئین کی سربلندی اور قانون کی عملداری سے ہمارا سب سے بڑا جمہوری ادارہ منتخب پارلیمنٹ ہے۔ آئین اور قانون نے اس کے لئے جو مدت مقر ر کردی ہے ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ اس کی حرمت و تقدس پر ڈٹ جائیں۔ کسی اقتدار کے حریص یا طالع آزما کو کسی بھی نعرے یا چکنے وعدے کی بنیاد پر یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ پارلیمنٹ کے تقدس کو مجروح کرے۔ اصولاً سپریم جوڈیشل کونسل کا فیصلہ آجانے کے بعد دھاندلی دھاندلی کا کھیل ختم ہو جانا چاہئے تھا لیکن اگر کسی ٹریبونل نے انتخابی بے ضابطگیوں کو بنیاد بنا کر عوام کو سزا دیتے ہوئے تین حلقوں کے نتائج کو کالعدم قرار دیاہے تو اس کا قانونی راستہ یہی تھا کہ ایسے متنازع فیصلے کے خلاف سپریم عدالت میں اپیل دائر کی جاتی تاکہ انصاف کے تمام تر تقاضے پورے ہو جاتے۔ اگر سپریم کورٹ اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیتی یا برقرار رکھتی تو سب پر لازم ہوتا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر سرتسلیم خم کردیتے۔ ہماری رائے میں ایسی کوئی وجہ نہیں تھی کہ سپریم کورٹ انتخابی عملے کی کوتاہیو ںیا بے ضابطگیوں کی سزا رائے دہندگان یا ان کے نمائندوں کو دیتی۔ بالفرض ایسے ہو بھی جاتا تو عوامی عدالت میں جانے سے انکار کسی کو بھی نہ ہوتا۔ ہماری رائے میں مسلم لیگ (ن) نے سپریم جوڈیشری کا فیصلہ لئے بغیر عوامی عدالت میں پیش ہونے کا جو عندیہ ظاہر کیا ہے یہ ضرورت سے زیاد ہ ردعمل ہے۔ اس پر ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کو اپنی عوامی مقبولیت پر پورا پورا اعتماد ہے۔ چھ ضمنی انتخابی نتائج اس کے سامنے ہیں۔ لہٰذا اگلے تین چار معرکوں میں بھی اگر وہ سرخرو ہوتے ہوئے اپنے سیاسی حریفوں کو ناک آئوٹ کرتی ہے تو یقینا ًوہ یہ سمجھتی ہے کہ اس سے نہ صرف یہ کہ تمام تر الزامات کے پس منظر میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا بلکہ بدیہی طور پر 2018 کے بڑے معرکے پر بھی اس کے بہت اثرات ضرور مرتب ہوںگے۔ وہ نئے اعتماد کے ساتھ ایک پاپولر سیاسی جماعت کی حیثیت سے ابھرے گی۔ جہاں تک سابق کھلاڑی کے اس مطالبے کا تعلق ہے کہ الیکشن کمیشن کے چاروں ممبران مستعفی ہوجائیں ہماری نظر میں اگرچہ یہ مطالبہ نامناسب اور غیرقانونی ہے اور آزاد میڈیا کو اس کی مخالفت کرنی چاہئے کیونکہ وطن عزیز میں کسی بھی ایشو پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنا ایک کٹھن اور مشکل امر ہے لیکن جس طرح خود پی پی بھی اس مطالبے میں رطب اللسان ہوچکی ہے اسے مشروط طور پر تسلیم کرنے میں لمحے کی دیر نہیں کی جانی چاہئے۔ شرط صرف اتنی ہے کہ قائد حزب اختلاف نئے ممبران کی تقرری میں آئینی تقاضے پورے کرتے ہوئے کسی کو تاہی کا مظاہرہ نہ کریں اور پارٹی مفاد سے اوپر اٹھ کر قومی مفاد کی سوچ کا تسلسل نہ توڑیں۔ جب ضمنی ہی نہیں بلدیاتی انتخابات بھی سر پر کھڑے ہیں تو اس حوالے سے سیاست بازی کئی نئی پیچیدگیوں کو جنم دے گی۔
تین قومی حلقوں میں جو ضمنی انتخابات ہونے جارہے ہیں وہ اپنے نتائج کے حوالے سے بڑی اہمیت کے حامل ہوں گے۔ مسلم لیگ (ن) اپنے تئیں یہ سمجھے بیٹھی ہے کہ وہ یہ معرکہ سر کرنے کے بعد اپنی اگلی نصف ٹرم قومی تعمیر و ترقی کے منصوبہ جات پر لگا سکے گی جبکہ دوسری جانب تمام تر بظاہر پوشیدہ مقاصد پوری طرح عیاں ہیں عوام میں ان کی جڑیں کتنی سطحی ہیں اس کا ادراک انہیں بھی ہے لہٰذا وہ کسی بھی قیمت پر اصولی کی بجائے احتجاجی سیاست کا عمل جاری رکھناچاہتی ہے۔ اس سے انہیں ایک فائدہ تو یہ پہنچتا ہے کہ بہت سے مخلصین جو دیانتداری کے ساتھ یہ خیال کرتے ہیں کہ سوسائٹی میں تبدیلی آنی چاہئے روایتی اجارہ داریاں ختم ہونی چاہئیں۔ ایسے تعلیم یافتہ مخلصین کی ہمدردی و تعاون ان لوگوں کو محض ایسی صورت میں حاصل رہ سکتا ہے اگر وہ احتجاجی سیاست کرتے ہوئے تبدیلی کے فلک شگاف نعرے لگاتے رہیں۔ دوسرے ہارے ہوئے لوگوں کی ہمیشہ یہ تمنا ہوتی ہے کہ احتجاجی سیاست کے ذریعے افراتفری بڑھے تاکہ سسٹم میں کسی بھی نوع کا کریک ڈائون آئے نتیجتاً ان کو اوپر آنے کے مواقع میسر آئیں۔ دوسری طرف جو اعتماد پایا جارہاہے بے بنیاد وہ بھی نہیں ہے۔ وزیراعظم نوازشریف اور ان کی پارٹی کے لئے خوش کن امر یہ نہیں ہے کہ ان لوگوں کی کارکردگی کسی ویسٹرن اسٹائل کی مضبوط سیاسی پارٹیوں جیسی ہے بلکہ انہیں پرسکون رکھنے کے لئے یہی حقیقت وزنی ہے کہ ان کے مخالفین کسی کارکردگی کو چھوڑ سیاسی سوجھ بوجھ اور تدبر سے بھی محروم ہیں۔ اگر ہم PTIاور PPP کا ان ہر دو حوالوں سے پوسٹ مارٹم کریں تو الگ سے منفی کالم لکھنا پڑے گا لہٰذا ہم اس مثبت تاثر پر کالم کا اختتام کرتے ہیں کہ ہمارے نہ صرف یہ کہ سیاسی ادارےبلکہ بیشتر قومی ادارے بھی بہتری کی طرف گامزن ہیں۔ ہماری قومی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ خوش کن امر ہوا ہے کہ ہماری آرمی شدت پسندی کے خلاف سویلین حکومت کی پشت پرہے۔ قیمت تو ہر چیز کی چکانی پڑتی ہے لیکن ہنوز جو کچھ بھی ہوا ہے یہ سب اس مضبوط ڈھارس کے بغیر ممکن نہیں تھا دوسرے ہماری جوڈیشری کا رول بھی بڑی حد تک قابل ستائش ہے ۔
کراچی کا مسئلہ کس قدر حساس مسئلہ ہے ہمارے تمام قومی ادارے اس کریڈیٹ کے مستحق ہیں کہ ہنوز انہوں نے کہیں بھی ذمہ داری کا دامن نہیں چھوڑا متحدہ کو کچلنے کی بجائے اپنا ٹارگٹ اس کے غیرذمہ دار جرائم پیشہ عناصر تک محدود رکھا ہے اور اس سلسلے میں کارروائی بڑی حد تک بلاامتیازہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ امید کی جانی چاہئے کہ یہ ’’شفقت‘‘ محض متحدہ تک نہیں رہے گی معاملہ کرپشن کا ہو یا بھتے کا د ہشت گردی کا ہو یا قتل و غارت گری کا جو بھی اس میں ملوث پایا جاتا ہے بلاتفریق و امتیاز صفائی سب کی ہونی چاہئے اور ہر جگہ ہونی چاہئے۔