ذہنی بیمار، علاج کے ساتھ ساتھ توجہ اور شفقت ضروری ہے

October 19, 2016

جویریہ صدیق....ہمارے ہاں لوگ نفسیاتی مسائل اور ذہنی امراض پر بات کرنے سے گھبراتے ہیں۔انہیں چھپایا جاتا ہے ۔کسی کو بھی اگر ذہنی یا نفسیاتی مسائل کا سامنا کرنا پڑے تو گھر والے اس بات کو جھٹلاتے رہتے ہیں کہ کوئی مسئلہ ہے ۔کوئی اسے نظر قرار دیتا ہے کوئی جادو تو کوئی ایسے ڈرامہ بازی کار دیتا ہے ۔مریض اندر ہی اندر گھلتا ہے ۔اس کے مسائل بڑھتے رہتے ہیں اور گھر والے اس کو اس بات پر مجبور کرتے رہتے ہیں کہ وہ نارمل رویہ رکھے کسی کو پتہ نہیں چلے کہ وہ کسی قسم کی پریشانی میں مبتلا ہے ۔

ذہنی امراض میں مبتلا شخص کو اس بات کا بھی بار بار احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ کتنا نا شکرا ہے۔ ہاتھ پیر سلامت ہونے کے باوجود دنیا کی تمام نعمتیں ہونے کے باوجود وہ خوش کیوں نہیں ہے، افسردہ کیوں ہے۔اس کو بار بار طعنے دے کر احساس جرم میں مبتلا کردیا جاتا ہے۔دماغی امراض کے پیچھے بہت سے عوامل کار فرماہوتے ہیں۔ بعض اوقات کچھ واقعات حادثات اور بعض اوقات دماغی چوٹ اور کیمیائی تبدیلیوں کی وجہ سے بھی انسان ان کا شکار ہوجاتا ہے۔

ذہنی بیماریاں اصل میں رویے سوچ اور طرز زندگی میں تبدیلی اور بگاڑ پیدا کرتی ہیں ۔طبی ماہرین کے مطابق ذہنی بیماروں کی دو سو سے زائد اقسام موجود ہیں جن میں عام ڈپریشن، انزایٹی،او سی ڈی ، فوبیا ، شیفزوفرنیا، بائی پولر،ڈیمنشیا شامل ہیں ۔

اس کی وجوہات بہت سی ہیں۔ کیمیائی تبدیلیاں،واقعات سانحات،جسمانی بیماریاں،جینیاتی عوامل، دماغی چوٹ،بچپن میں کسی بچے کو ہراساں یا جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جائے اور خواتین میں گھریلو تشدد کے باعث یہ بیماریاں جنم لیتی ہیں۔دہشت گردی خود کش حملے امن و امان کی خراب صورتحال بھی ذہنی صحت کوبری طرح متاثر کرتےہیں۔

ان بیماریوں کی علامات کچھ یوں ہیں۔ کوئی شخص اچانک لوگوں سے کترانے لگے، تنہائی پسند ہوجائے،کنفیوژن کا شکاررہے ، کبھی بہت خوش تو کبھی بہت غمگین نظر آئے ۔خاموشی اختیار کرلے،اپنی صحت اور صفائی کا خیال نا کرے،یا کھانا بالکل کم کردے یا کھانا بہت زیادہ کردے،نیند کے اوقات بھی تبدیل ہوجائیں۔

جراثیموں کا خوف،سانس لینے میں دشواری،بہت غصہ آنا،ایسی چیزیں دیکھنا جو موجود نہیں،کام کی کارکردگی متاثر ہونا ،تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہونا،بے ہنگم خیالات، گھبراہٹ، رشتوں میں تناؤ،خود کشی کے خیالات آنا، کچھ کیسز میں لوگ ڈرگز بھی لینا شروع کردیتے ہیں اور سر میں یا جسم میں درد کی شکایت یہ کچھ عام علامات ہیں جو ذہنی امراض میں مبتلا مریض کوہوسکتی ہیں لیکن یہ بات یاد رہے کہ ہر بیماری کی علامات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔

کبھی کچھ سانحات کی وجہ سے بھی انسان میں یہ علامات آجاتی ہیں لیکن کچھ عرصے تک ٹھیک ہوجاتی ہیں۔اگر یہ علامت کچھ عرصے تک ٹھیک نا ہوں تو ڈاکٹر کو دکھانا لازمی ہوجاتا ہے۔ اگر آپ اپنے اردگرد، گھر، رشتے داروں، تعلیمی اداروں یا دفاتر میں کسی ایسے شخص کو دیکھیں جس کے رویے میں یکدم تبدیلی آگئی ہو۔اس کی مدد کرنے کی کوشش کریں ۔زہنی امراض میں مبتلا افراد اندر ہی اندر اس خوف کا شکار ہوتے ہیں کہ کسی کو معلوم ہوگیا تو سب کیا کہیں گے ۔ان کا اعتماد بحال کریں اور یقین دلائیں جس طرح دیگر جسمانی بیماریاں ہوتی ہیں اور علاج کے بعد ٹھیک ہوجاتی ہیں ۔اسی طرح نفسیاتی امراض بھی علاج ،کونسلنگ،توجہ پیار محبت سے ٹھیک ہوجاتے ہیں ۔

سب سے پہلے مریض کو بہت آرام سے اس بات پر راضی کیا جائے کہ وہ ڈاکٹر سے ملے اور اپنا مسئلہ بیان کرے اور دوائی کھائے ۔دوائی کے دو ہفتے کے بعد کونسلنگ شروع کی جائے اور ساتھ میں ہلکی واک ،دوستوں سے گپ شپ بھی مریض پر خوشگوار اثر ڈالتی ہے۔دوائی سے پہلے ہی ماہ میں کافی فرق نظر آتا ہے لیکن اس کو ڈاکٹر کی تجویز کے بغیر نا چھوڑیں۔

ذہنی امراض کے کورس دو سے چھ ماہ کے دورانیے پر مشتمل ہوتے ہیں۔کچھ بیماریوں میں صحت یابی اتنی جلدی نہیں ہوتی اس کے لئے مریضوں کو ہسپتال میں بھی رکھنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں ہزاروں ذہنی مریضوں کے لئے صرف چار سو ڈاکٹرز موجود ہیں یہ تعداد تشویشناک طور پر کم ہے ۔

غربت وتوہمات کی وجہ سے بہت لوگ ڈاکٹرز کے پاس بھی نہیں جاتے کچھ فیس نہیں دے سکتے تو کچھ ان بیماروں کو جادو نظر اور ڈرامہ قراردےدیتے ہیں۔اس لئے ان مسائل پر بات کرنا بہت ضروری ہے۔عالمی ادارے کی تحقیق کے مطابق آدھے سے زائد ذہنی امراض چودہ سال کی عمر سے باقی چوبیس سال کی عمر سے شروع ہوتے ہیں۔

پاکستان میں اس حوالے سے آگاہی اور سہولیات بہت کم ہیں۔ شعبہ ذہنی امراض اگر اسپتالوں میں موجود بھی ہیں تو اسپتال کے عین وسط میں ہیں جبکے نفسیاتی مریض اکثر اوقات رش اور لوگوں سے گھبراتے ہیں ۔جو ڈاکٹرز پرائیوٹ پریکٹس کررہے ہیں ان کی فیس عام لوگوں کی پہنچ سے باہر ہے ۔

یہاں ذمے داری حکومت محکمہ صحت اور ڈاکٹرز پر عائد ہوتی ہے کہ وہ ذہنی مسائل میں مبتلا افراد کی مدد کریں ۔ٹی وی، ریڈیو، اخبارات اورکتابچوں کے ذریعے لوگوں میں آگاہی پیدا کی جائے۔ہر اسپتال میں سکایٹریسٹ کے ساتھ سائیکولوجسٹ بھی تعینات کئے جائیں ۔اس کے ساتھ کم آمدنی والے افراد کے لئے مفت چیک اپ اور کونسلنگ مہیا کی جائے۔

اس کے ساتھ ساتھ گھر والوں اور دوستوں کا رویہ بھی بہت اہم ہے۔ خدارا ذہنی امراض میں مبتلا افراد کو پاگل کہہ کر مت پکاریں ۔انہیں اپنے مرض کے ساتھ لڑنے کی ہمت دیں ۔ انہیں اس بات کا احساس دلائیں وہ بھی کارآمد شہری ہیں۔ ذرا سی توجہ محبت دوائی اور کونسلنگ کے بعد وہ دوبارہ اپنی زندگی کی طرف لوٹ جائیں گے۔

ہم مسلمان ہیں ہم طبی علاج کے ساتھ ساتھ نماز ،قرآن پاک اور صدقہ خیرات کرکے بھی بہتر محسوس کرسکتے ہیں ۔پانچ بار وضو بھی انسان کو ہشاش بشاش رکھنے میں معاون رہتا ہے۔روزانہ نہایں متوازن غذا کھائیں ۔مکمل نیند بھی ہمیں ذہنی امراض سے بچاتی ہے۔

کسی بھی شخص میں ذہنی امراض کی علامات دیکھیں تواس کو پیار اور پوری سپورٹ دیں اور جعلی عاملوں کے پاس لیجانےسے گریز کریں ۔ایسے عامل صرف زندگی نہیں آخرت بھی خراب کردیتے ہیں ۔اس لئے ذہنی بیماروں کا علاج پیار محبت طبی علاج اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کریں ۔

Javeria Siddique writes for Daily Jang
Twitter javerias