سیاسی بحران اور پاکستانی جمہوریت

October 21, 2016

وطن عزیز میں سیاسی بحران دن بدن بڑھتا جارہا ہے۔ پانامالیکس کے ایشو پر اپوزیشن جماعتیں حکمراں خاندان کا احتساب چاہتی ہیں۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ پاکستانی جمہوریت کو ایک بار پھر شدید خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔ رہی سہی کسر ایک انگریزی اخبار کے صحافی کی قومی سلامتی کے اجلاس سے متعلق شائع ہونے والی غلط خبر نے نکال دی ہے۔ سوال یہ ہے کہ انگریزی اخبار میں شائع ہونے والی اس خبر کو لیک کس نے کیا؟ اور اس خبر کی فیڈنگ میں کون سے حکومتی افراد شامل ہیں؟ واقفان حال کا کہنا ہے کہ کور کمانڈرز کی حالیہ کانفرنس میں اس اہم اور حساس مسئلے پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بھی پاک فوج کی جانب سے اس سلسلے میں پائے جانے والے شدید احساس کو وزیراعظم نوازشریف تک پہنچا دیا ہے۔ وزیراعظم نوازشریف نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ون آن ون ملاقات کے بعد وفاقی وزیر چوہدری نثار علی خان کو ہدایت کی ہے کہ وہ قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والی اس خبر کے ذرائع کی تحقیقات جاری رکھیں اور معلوم کیا جائے کہ بند کمرے میں ہونے والے اس اہم نوعیت کے اجلاس کی کارروائی آخر کیسے صحافی تک پہنچی؟ واقفان حال کا مزید کہنا ہے کہ عسکری قیادت نے وزیراعظم نوازشریف سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس معاملے کی فوری تحقیقات کروائیں اور جو افراد بھی اس خبر کو لیک کرنے میں ملوث ہیں اُن کے خلاف فی الفور کارروائی عمل میں لائی جائے۔ اس حوالے سے افواہیں ہیں کہ وفاقی وزیر پرویز رشید اور وزیراعظم ہائوس کےایک ترجمان نے انگریزی اخبار کے اس صحافی کو خبر کی فیڈنگ کی تھی۔ لگتا یہ ہے کہ سابق وفاقی وزیر مشاہد اللہ خان کی طرح اب وفاقی وزیر اطلاعات اور دیگر سرکاری افراد کی بھی حکومت کو قربانی دینا پڑے گی۔ شائع ہونے والی اس خلاف واقعہ خبر کا یقیناً سب سے زیادہ فائدہ بھارت، امریکہ اور دیگر پاکستان دشمن طاقتوں کو ہوا۔ اس خبر کے ذریعے ایسا تاثر دیا گیا کہ وفاقی حکومت بھارت سے اچھے تعلقات کی خواہاں ہے جبکہ ہمارے عسکری ادارے اس میں رکاوٹ ہیں۔ حیران کن امر یہ ہے کہ اس خبر کی اشاعت کے بعد وزیراعظم نوازشریف خود تو آذربائیجان کے سرکاری دورے پر چلے گئے تاہم اُن کی ملک میں عدم موجودگی کے دوران وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے صحافی سرل المیڈا کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا۔ یہ ایک جذباتی اور غیردانشمندانہ اقدام تھا۔ وفاقی حکومت کو اس خبر کے ذرائع کی تحقیقات کرنی چاہئے تھیں تاکہ پتہ چلتا کہ آیا یہ خبر کیسے متعلقہ صحافی تک پہنچ پائی؟ اگرچہ وزیراعظم ہائوس اور آئی ایس پی آر نے واضح الفاظ میں قومی سلامتی کے خلاف شائع ہونے والی اس خبر کی فوری تردید کردی تھی۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ایک صحافی کا بنیادی کام خبر دینا ہوتا ہے اور اخبار کا ایڈیٹر اُس خبر کو جانچ پرکھ کر شائع کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ اگر خبر درست ہو اور اُس کا سورس بھی مضبوط ہو تو کوئی بھی صحافی اپنی خبر پر قائم رہتا ہے۔ اسی تناظر میں یہ خبر خلاف واقعہ ہے اور اس خبر کی اشاعت سے قومی سلامتی کو نقصان پہنچا ہے تو پھر وفاقی حکومت کو عدالت سے رجوع کرنا چاہئے کیونکہ کسی بھی صحافی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ دنیا بھر میں ملک کی بدنامی ہوتی ہے۔ وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان نے اے پی این ایس اور سی پی این ای کی اخباری تنظیموں کے نمائندہ وفود سے ملاقات کے دوران صحافی کا نام ای سی ایل سے نکال کر ایک اچھا اقدام کیا ہے۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے بھی یہ کہا گیا ہے کہ اصل معاملہ ای سی ایل میں کسی صحافی کا نام ڈالنے سے حل نہیں ہوگا بلکہ قومی سلامتی کے اجلاس کی غلط خبر کی فیڈنگ کرنیوالے ذرائع کو بے نقاب کرنے اور ان کیخلاف کارروائی کرنا ازحد ضروری ہے۔
یادش بخیر! پیپلزپارٹی کے سابقہ دور حکومت میں بھی میمو گیٹ کا معاملہ منظر عام پر آیا تھا۔ اُس وقت بھی بالآخر امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کو فارغ کیا گیا تھا۔ بعدازاں ملکی حالات زیادہ خراب ہوئے تو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو بھی وزارتِ عظمیٰ سے ہاتھ دھونے پڑے تھے۔ قومی سلامتی کے خلاف خبر کی اشاعت کے علاوہ دوسرا بڑا اہم ایشو پاناما لیکس حکومت کے لئے اس وقت دردسر بنا ہوا ہے۔ پاناما لیکس کو منظر عام پر آئے چھ ماہ گزر چکے ہیں مگر ابھی تک وفاقی حکومت کی طرف سے اس ضمن میں کوئی سنجیدہ عملی اقدام دیکھنے میں نہیں آیا بلکہ حکومتی وزراء تو وزیراعظم نوازشریف کو احتساب سے بچانے کے لئے سرگرم عمل دکھائی دیتے ہیں۔ رواں اکتوبر کا مہینہ ملکی سیاست میں کیا گُل کھلائے گا اس کا اندازہ تو آنے والے دنوں میں ہوجائے گا؟ سپریم کورٹ میں جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور شیخ رشید کی جانب سے پاناما لیکس پر دائر درخواستوں پر 20اکتوبر سے پانامالیکس کی باقاعدہ سماعت شروع ہوجائے گی اگر عدالت عظمیٰ روزانہ کی بنیاد پر اس اہم کیس کی سماعت کرے گی تو ممکن ہے کہ چند دنوں میں اس کا فیصلہ عوام کے سامنے آجائے۔ اس وقت پوری قوم امید بھری نظروں سےسپریم کورٹ کی طرف دیکھ رہی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے موقع پر برطانوی وزیر اعظم سرونسٹن چرچل سے کسی نے سوال کیا تھا کہ کیا برطانیہ قائم رہے گا تو چرچل نے تاریخی جواب دیا تھا کہ کیا ہماری عدالتیں آزاد ہیں؟ اگرعدالتیں آزاد ہیں تو پھر برطانیہ قائم رہے گا۔ آج ہمارے ہاں بھی اس نازک موڑ پر عدلیہ کو اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔ کیونکہ جن معاشروں میں عدل و انصاف کا خون ہوتاہے وہ کسی بھی صورت مہذب نہیں کہلائے جاتے۔ وہاں آمریت راج کرتی ہے اور جمہوری قدریں کبھی بھی پنپ نہیں سکتیں۔ کسی بھی جمہوری معاشرے میں پارلیمنٹ اور دیگر ریاستی اداروں کے درمیان توازن آزاد عدلیہ کے ذریعے ہی ممکن ہوپاتا ہے کیونکہ عدلیہ اپنے آزادانہ اور منصفانہ فیصلوں سے اداروں کو آپس میں ٹکرائو سے بچاتی ہے۔ اس وقت ملک میں جو تھوڑی بہت آزاد عدلیہ موجود ہے وہ تمام دینی و سیاسی جماعتوں کی مشترکہ جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ ماضی میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کی تحریک میں تمام سیاسی جماعتوں اور میڈیا نے بھرپور جدوجہد کی تھی لیکن بدقسمتی سے ابھی بھی ہمارا عدالتی نظام فعال اور متحرک نہیں ہوپایا۔ بہرکیف سپریم کورٹ کے پاس پاناما لیکس کی شکل میں ایک ٹیسٹ کیس موجود ہے۔ اگر وزیراعظم نوازشریف کی فیملی اور دیگر پاکستانی افراد جن کے نام پاناما لیکس میں آئے ہیں انہوں نے اگر واقعی ملکی دولت کو ناجائز طریقے سے آف شور کمپنیوں میں منتقل کیا ہے تو پھر سب کا کڑا اور بے رحم احتساب ہونا چاہئے۔ یاد رکھئے! ملکی مفاد میں جمہوری سسٹم کو چلنا چاہئے۔ افراد کی قربانیاں اتنی اہم نہیں ہیں۔ خدانخواستہ کہیں ایسا نہ ہو کہ افراد کو بچاتے بچاتے جمہوریت ہی ختم ہوجائے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستانی قوم کو عدالت عظمیٰ سے پاناما لیکس کے حوالے سے کیس پر انصاف مل پاتا ہے یا پھر جمہوریت ایک بار پھر پٹڑی سے اترجائے گی؟


.