کھلا تضاد

September 19, 2015

16جولائی1947ء کو برطانوی پارلیمنٹ نے Indian Independene Act منظور کیا جس میں پاکستان کے حصے میں آنیوالے صوبوں اورعلاقوںکی تفصیل بیان کردی گئی تھی۔ اس قانون کے سیکشن 4 کے تابع سیکنڈ شیڈول کے مطابق صوبہ پنجاب ، لاہور، ملتان اور راولپنڈی ڈویژنوں پر مشتمل تھا، لاہور ڈویژن میں چار اضلاع، گوجرانوالہ ، شیخوپورہ، سیالکوٹ اور لاہور شامل تھے ، ملتان ڈویژن میںچھ اضلاع، جھنگ، لائل پور (اب فیصل آباد) ، منٹگمری (اب ساہیوال) ، مظفر گڑھ، ڈیرہ غازی خان اور ملتان جبکہ راولپنڈی ڈویژن بھی چھ اضلاع ، اٹک، گجرات، جہلم، میانوالی، شاہ پور( اب سرگودھا) اور راولپنڈی پر مشتمل تھا۔
قیام ِ پاکستان کے بعد 5اکتوبر1947ءکو ریاست بہاولپورایک معاہدہ کے تحت وفاقی اکائی کے طور پر پاکستان کا حصہ بنی ۔ 1951 ء میں اسے قانونی طور پرصوبائی حیثیت دی گئی واضح رہے کہ اُس وقت پاکستان میں آئین موجود نہیں تھا۔ اور 1955ءمیں مغربی پاکستان کے دیگر صوبوںاور علاقوں کی طرح بہاولپور بھی ایک معاہدے کے تحت ون یونٹ میں شامل ہوا ۔ 1970ءمیں جب ون یونٹ ختم کیا گیا تو مغربی پاکستان کے تمام صوبوںکو بحال کردیا گیا لیکن غاصب یحییٰ خان نے ایک غیر قانونی ، غیر آئینی اور غیر اخلاقی ایل ایف او کے ذریعے بہاولپور کے عوام کی خواہش کیخلاف ان سے ان کی پہچان ، صوبہ بہاولپور چھین کر اسے ایک ڈویژن کی حیثیت سے پنجاب کا حصہ بنا دیا ۔1947 ءمیںپاکستان میں شامل ہونبوالے پنجاب کی آبادی دوکروڑ جبکہ ریاست بہاولپور کی آبادی سولہ لاکھ تھی، آج پاکستان کا حصہ بننے والے اُس پنجاب کی آبادی میں ساڑھے چارگنا جبکہ بہاولپور کی آبادی میں آٹھ گنا اضافہ ہوا ہے اور اس وقت پنجاب کی مجموعی آبادی دس کروڑ سے بڑھ چکی ہے۔ چنانچہ بڑھتی ہوئی آبادی کے تناظر میں پیش آمدہ انتظامی ضروریات کے تحت پنجاب میں اب تک پانچ نئے ڈویژن اور سترہ نئے اضلاع بنائے جا چکے ہیں ۔ لاہورڈویژن میں شامل ضلع گوجرانوالہ کو ایک الگ ڈویژ ن کی حیثیت دی جا چکی ہے، ملتان کے اضلاع فیصل آباد ، ساہیوال ، ڈیرہ غازی خان ڈویژن بنائے جاچکے ہیں۔ راولپنڈی کے ضلع شاہ پور (سرگودھا) کوبھی ڈویژن کا درجہ دیا جاچکاہے ، اس طرح پانچ نئے ڈویژن وجود میں آگئے پھر ان میں سترہ نئے اضلاع بنائے گئے اور 35نئی تحصیلیں بھی۔لیکن بہاولپور میںنہ تو کوئی نیاضلع بنایا گیا اور نہ ہی ڈویژن اور بہاولپور آج بھی ایک ڈویژن اور تین اضلاع پر مشتمل ہے۔ اسکی کوئی انتظامی توجیح پیش نہیں کی جا سکتی ہے؟ یہ صرف اور صرف کھلا تضاد ہے۔اگر رقبے کے حساب سے دیکھا جائے تو بہاولپور پنجاب کے ایک چوتھائی رقبے پر مشتمل سب سے بڑا ڈویژن ہے جس کا رقبہ 45588مربع کلومیٹرہے۔ اسکے اضلاع کی وسعت باقی ماندہ پنجاب کے کئی ڈویژنوں سے زائد ہے اور اسکی اکثر تحصیلیں پنجاب کی سب سے بڑی تحصیلیں ہیں۔ آخر نئے اضلاع اور نئے ڈویژن بنانے کیلئے گزشتہ ساٹھ سالوں سے حکمرانوں نے کیا پیمانے طے کر رکھے ہیں؟ بہاولپور کے لوگ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔نئے ڈویژنوں اور اضلاع کی تشکیل کیلئے حقیقی پنجاب میں اختیا ر کئے جانیوالے اصول کوبہاولپور میں بھی اپنایا جاتا تو آج یہ خطہ بہاولپور ، رحیم یار خان اور بہاولنگر یعنی تین ڈویژن پر مشتمل ہوتاجبکہ یزمان، احمدپورشرقیہ، حاصل پور، خیرپور ٹامیوالی، صادق آباد، خان پور، لیاقت پور، منچن آباد، چشتیاں، فورٹ عباس اور ہارون آباد ضلع بن چکے ہوتے ،جس طرح کہ بہاولپور کا پڑوسی ، ملتان ڈویژن جو قیام ِ پاکستان کے وقت چھ اضلاع پر مشتمل تھا آج چار ڈویژنوں اور پندرہ اضلاع پر مشتمل ہے ۔جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بہاولپور کے لوگوں کا حق تھا کہ وہاں بھی نئے ڈویژن اور اضلاع بنائے جاتے لیکن انہیں اس حق سے محروم رکھا گیا۔ حالانکہ اس کیلئے نہ تو کسی آئینی ترمیم کی ضرورت تھی ، نہ دو تہائی اکثریت کی اور نہ ہی معاملات کولٹکانے کیلئے کسی ’’کمیٹی‘‘ کے قیام کی ۔ یہ سب کچھ وزیرِ اعلی صاحب کے انتظامی آرڈر کے تحت ہوسکتا تھا ، اسلئے یہاں کے عوام یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ حکمران انہیں کسی قسم کی مطلوب انتظامی سہولتیں دینے کی بجائے اس خطہ کے عوام کوباقی پنجاب کی نسبت کم تر حیثیت کا شہری سمجھتے ہیں اور محض اپنی نو آبادی بنائے رکھنا چاہتے ہیں۔
بہاولپورکے ساتھ جاری بدترین انتظامی استحصال کے اثرات زندگی کے ہر شعبے میں واضح طور پر نظر آرہے ہیں ، بین الاقوامی اداروں، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے جاری کردہ اعداد و شمار اور تفصیلات چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ اس خطے کے خلاف محض ظلم اور زیادتی نہیں بلکہ انتظامی دہشت گردی کی جارہی ہے، جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ برِ صغیر کی خوشحال ترین فلاحی ریاست آج ایک بدحال اور پسماندہ ترین ڈویژن بن چکا ہے ۔بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی ، اس خطے کیساتھ ہر شعبہ زندگی میں استحصال روا رکھا جارہا ہے ، بہاولپور کو موٹر وے اور اقتصادی راہ داری سے الگ کرکے ترقی کے ثمرات سے محروم کرنے کے ناپاک اقدام ، دریائے ستلج کی فروخت اور اسکے نتیجے میںزیرِ زمین پانی کی گرتی ہوئی سطح ، اور اس میں سنکھیا اور دیگر زہریلے اجزاء کے باعث کینسر، ہیپاٹائٹس ، ہیضہ ، ٹی بی ، انتڑیوں ، آنکھوں اور جلدکے امراض کا شکار ہوتے ہوئے یہاں کے بے بس عوام۔صحت کی سہولتوں کا فقدان، پانچ سال سے کم عمر کے پھول جیسے معصوم بچوں میں بڑھتی ہوئی شرح اموات، الغرض اس خطے میں ستلج کی سسکتی تہذیب نوحہ کناں ہے ، خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرتی ہو ئی 52 فیصد آبادی اور اس میں ہوتا ہوا مسلسل اضافہ، مقامی املاک کی فروخت اور اس سے حاصل ہونیوالی رقوم کا دیگر علاقوں کی ترقی و زیبائش کیلئے استعمال ،بہاولپورکی آبادی پنجاب کا بارہ فیصد لیکن ملازمتوں میں حصہ دو فیصد سے بھی کم اور نوجوانوں میںبے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح ،بہاولپور کا رقبہ پنجاب کا ایک چوتھائی فیصد لیکن ترقیاتی فنڈز کی فراہمی تین فیصد سے بھی کم، محرومی کے اشاریوں میں بہاولپور کی افسوسناک صورتِ حال، اعلیٰ تعلیم کے اداروں کی کمی، بہاولپور کو اسکے حصے سے پچاس فیصد کم زرعی پانی کی فراہمی ، علیٰ ہٰذالقیاس۔
میں نہ تو صحافی ہوں اور نہ ہی کالم نگار اور نہ ہی بننے کی اہلیت رکھتا ہوں۔میری تحریریں محض دل دکھانے اور رنجیدہ کردینے والے وہ حقائق ہیں جو میں گزشتہ کئی سالوں سے نہ صرف یکجا کر رہا ہوں بلکہ ان کا مشاہدہ بھی کر رہا ہوں۔ میں نے قلم صرف اسلئے اٹھایا ہے کہ بہاولپور کے مجبور اور مقہور عوام کے دکھ دوسرے ہم وطنوں تک پہنچائوں ۔میں حکمرانوں کو متنبہ کردینا چاہتا ہوں کہ بہاولپور کیساتھ نصف صدی سے جاری ظلم کا سلسلہ روک کر ماضی کی زیادتیوں کی تلافی کریں ۔عشروں سے ہمارا استحصال کرنیوالے آخر کب تک خود کو جھوٹے وعدوں ، دعوئوں، نمائشی منصوبوں کے اعلانات اور اعداد و شمار کے ہیر پھیر کی اوٹ میں چھپائیں گے ؟میں واضح کردینا چاہتا ہوں کہ میں اس خطے کیساتھ جاری رکھے گئے امتیازی سلوک، مجرمانہ زیادتیوں کی تفصیلات ، پسِ پردہ حقائق ، اور متعصبانہ رویوں کو منظر عام پر لاکے رہونگا اور یہ کھلا تضاد حکمرانوں کے گلے کا طوق بن جائیگا ۔