پروفیسر افضل توصیف کی یاد میں تقریب

October 23, 2016

ہفتے کی شام لاہور پریس کلب کے ہال میں اہل علم و ادب کے ایک اچھے خاصے اجتماع کو دیکھ کر بہت حوصلہ اور اطمینان ہوا کہ ہماری زندگی کی ایک زندہ شعور اور بلوغت، نظریاتی سچائی، جرأت اور ہمت رکھنے والی استاد اور ادبیہ پروفیسر افضل توصیف کو اچھے لفظوں اور محبت بھرے انداز میں یاد کرنے اور یاد رکھنے والے لوگوں کی ایک معقول تعداد موجود ہے، جو زمانے کی خرابیوں ،پستیوں اورر جعت پسند جہالتوں کے اضافے میں بھی اپنی جرأت کا سینہ تانے ہوئے ہیں۔افضل توصیف کے بارے میں اپنے عہد کے دانشوروں کی باتیں سن کر معلوم ہوا، مرد اگر مذکر کے صیغے کے تحت آتے ہیں تو مردانگی کے لئے تانیث کا صیغہ کیوں استعمال کیا جاتا ہے۔ حقیقت ہے کہ پروفیسر افضل توصیف سے زیادہ ہمت، جرأت اور بہادری جیسا نمونہ بہت کم دیکھنے میں آیا ہے ، جن حالات ،مشکلات ،مصائب اور آزمائشوں سے توصیف گزری ہیں ان سے گزرنے کا اعزاز کسی دانشور اور نظریاتی پختگی رکھنے والی خاتون کو ہی حاصل ہوسکتا ہے۔ ان کے ساتھ قید و بند کی سختیاں برداشت کرنے والے ہی بتاسکتے ہیں کہ افضل توصیف خود ہی ہمت اور جرأت کا پیکر نہیں تھیں اپنے اردگرد اور نواح میں موجود لوگوں کو بھی ہمت اور حوصلہ فراہم کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی تھیں۔ جنرل ضیاء الحق کے انتہائی صبر آزما دور میں بحالی جمہوریت کی تحریک میں حصہ لینے کے سلسلے میں افضل توصیف کی قربانیوں کو سب سے زیادہ واجب احترام انداز میں یاد کیا گیا اور اس حقیقت کا عملی ثبوت پیش کرنے کی کوشش کی گئی کہ انسان مرجاتے ہیں مگر نظریات کی موت نہیں ہوسکتی۔ دراصل فرانس کے شاعر اور دانشور لوئی لپیراندلو کے الفاظ میں انسان دوسروں میں زندہ ہوتے ہیں اور جن انسانوں نے اپنی انسانی برادری کے لئے کوئی اچھا کام کیا ہوتا ہے وہ اپنی موت کے بعد بھی دوسروں کے اندر ان کے دلوں اور دماغوں میں زندہ رہتے ہیں۔ میں نے پریس کلب کے اس اجتماع میں جو افضل توصیف کی برسی کی تقریب میں موجود تھا ،افضل توصیف کو زندہ موجود محسوس کیا اور ایک شاعر کی خوبصورت نظم بھی یاد آئی کہ؎لوگوں نے اپنے مہربان مجاہد کی بجھتی ہوئیآنکھوں کو بند ہوتے دیکھا تو کہاہمارے مجاہد آنکھیں کھولومگر مجاہد کی آنکھیں بند ہوتی چلی گئیںپھر پورے علاقے کے لوگوں نےمجاہد سے کہا کہ آنکھیں کھولومگر مجاہد کی آنکھیں نہ کھلیںپھر سارے شہر کے لوگوں نےمجاہد سے کہا کہ آنکھیں کھولومگر مجاہد کی آنکھیں نہ کھلیںپھر قریبی شہروں اور آبادیوںکے لوگوں نے بھی مجاہد سے درخواست کیکہ آنکھیں کھولوتو لوگوں نے دیکھا کہ مجاہد کی پلکوں میںہلکی سی جنبش ہوئی ہےاور وہ مطمئن ہوئے کہ مجاہد انہیںچھوڑ کر نہیں جارہاافضل توصیف بھی اپنے محبت کرنے والوں، پیار کرنے والوں اور عقیدت رکھنے والوں اور نوید اور سعدیہ قریشی جیسے پیاروں کو چھوڑ کر نہیں جارہیں۔ ان کے نظریات کی زندگی اور توانائی نئی سے نئی افضلوں اور توصیفوں کو وجود میں لاتی رہیں گی۔ بلاشبہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ جو شخص اس دنیا سے جاتا ہے اس کی جگہ اس جیسا کوئی دوسرا نہیں آتا مگر قدرت اگر روشنی کو اندھیرے میں تبدیل کرتی ہے تو اندھیرے میں چراغ روشن کرنے کا شعور بھی فراہم کرتی ہے۔


.