نیب کہانی

October 01, 2015

رات کے ساڑھے آٹھ بجے تو قمرزمان چوہدری کے ساتھ بیٹھے مجھے ڈیڑھ گھنٹہ ہو چکا تھا لیکن ان90منٹوں میں ہی ایک تو میری یہ خوش فہمی دور ہو چکی تھی کہ موجودہ نظام کے ہوتے ہوئے کرپشن یا کرپٹ مگرمچھوں پر قابو پایا جا سکتا ہے کیونکہ یہاں اتنے چوردروازے ہیںکہ ایک قدم آگے بڑھنے کا مطلب تین قدم پیچھے ہٹنا اور دوسرا مجھے یہ یقین بھی ہو گیا تھا کہ پاکستان میں اب صرف غریبی ہی وہ جرم کہ جس کی سز ا ملتی ہے۔ہمیشہ دوسروں کی سننے مگر آج مسلسل بولنے والے قمر زمان چوہدری بولتے بولتے رکے اورپھر پانی کے چند گھونٹ چائے کی طرح چسکیوں میں پی کربولے ’’ پچھلے سال اکتوبر میں ایک دن اخبار پڑھتے ہوئے میں نے یہ خبر دیکھی کہ ’’ سبط الحسن المعروف ڈبل شاہ جیل سے رہائی کے بعد جب اپنے علاقے میں پہنچا تو عمائدین شہر اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اس کا استقبال کیا ، اس پر پھول کی پتیاں نچھاور کیں اور اسے جلوس کی شکل میںاس کی رہائش گاہ تک پہنچایا ‘‘ اگلے دن میںنے ڈبل شاہ کی فائل منگوائی تو پتہ چلا کہ موصوف نے 12 ارب سے زیادہ کا فراڈ کیا تھا اور تقریباً ساڑھے 9ارب واپس کرنے کے بعد وہ نیب قوانین کے تحت سب سے بڑی 14 سال کی سزا بھگت کر نکلا تھا ۔ پھر ابھی کل ہی وہ قاسم ضیاء جومبینہ طور پر یہ لکھ کر دیتا ہے کہ میں اپنے حصے کے2کروڑ40لاکھ واپس کرونگا اور پہلی قسط کے طور پر80لاکھ کا چیک حاضر ہے اسی قاسم ضیاء کی جب مشروط ضمانت ہوتی ہے تواس کا ایسے استقبال ہوتا ہے اور اس پر ایسے پھول پھینکے جاتے ہیں کہ جیسے وہ ورلڈ کپ جیت کر آیا ہو ۔ یہ ہے ہمارا معاشرہ اوریہ ہے ہماری قوم ۔ آگے سنیں،چند ہفتے پہلے یہاں ایک طرف یوسف رضا گیلانی کی میگا کرپشن اسکینڈل سمیت11کیسوں میں پہلی پیشی پر ہی ضمانت ہو جاتی ہے جبکہ دوسری طرف ایک قیدی سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے کہ حضورمیں 5 سال سے جیل میں ہوںلیکن میری پہلی پیشی ہی نہیں ہو رہی۔خود ہی دیکھ لیںایک طرف یہ جانوروں جیسا سلوک اور دوسری طرف ایسیhandling VIP کہ درجنوں بااثر ملزمان کوعدالتی پیشیوں سے ہی استثنیٰ حاصل ۔
آپ نیب کی کارکردگی سے مطمئن ہیں ؟ باتیں کرتے کرتے رک کر ایک بار پھر پانی پیتے چیئرمین نیب سے میں نے پوچھا توانہوں نے کہا ’’ میرے آنے سے پہلے زمین میں دھنسے نیب کو وہ شخص چلا رہا تھا جسے ایک بزنس ٹائیکون نے چیئرمین بنوایا تھا۔مگریہی نیب جو مذاق بن چکا تھا اور جسے لوگوں نے سنجیدگی سے لینا چھوڑ دیا تھا ، اسی نیب کی اب دوسالہ کارکردگی یہ ہے کہ 2014ءمیں 585انکوائریاں مکمل کی گئیں جبکہ 2013 ءمیں یہ تعداد 243تھی ، پچھلے سال 188 کیسز نمٹائے گئے جبکہ 2013ءمیں یہ تعداد 129تھی اور گزشتہ سال احتساب عدالتوں میں 208ریفرنسز فائل کئے گئے جبکہ 2013ءمیں یہ تعداد 135تھی۔جہاں یہی کارکردگی مجھے اطمینان بخشتی ہے وہاںمجھے یہ سوچ کر دکھ بھی ہوتا ہے کہ یہ کارکردگی اوربھی بہتر ہوتی اگر ایک جج صاحب خواہ مخواہ ہمیں سولی پر نہ لٹکائے رکھتے۔ انکی عدالت میں ہمارے ساتھ ہوتا کیا تھا یہ بھی سن لیں میرے آنے سے پہلے نیب میں پتوکی کی ایک ہائوسنگ سوسائٹی کا کیس پڑا ہوا تھا جس میں 4 افراد نے 12کروڑ کا فراڈ کیا تھا ہم نے یہ کیس دوبارہ کھول کر ایک ملزم فیاض غوری ولد منشی خان کو پکڑا تو اس نے سپریم کورٹ میں ضمانت کی درخواست دیدی اور پھر پہلی پیشی پر ہی یہ جج صاحب برس پڑے ’’ نیب سے بڑے ملزم تو پکڑے نہیں جاتے ، بے چارے منشیوں کو گرفتار کر رکھا ہے‘‘۔ بس پھر کیا تھا اس پوری پیشی کا ماحول یہ تھاکہ ہمارے وکیل کو یہ بتانے کی بھی اجازت نہ ملی کہ جناب عالی ہم نے کسی منشی کو نہیں بلکہ اس ملزم کو پکڑا ہے کہ جس کے والد کا نام منشی خان ہے اور جونہ صرف ہائوسنگ سوسائٹی کا ڈائریکٹر تھا بلکہ پچھلے انتخابات میں قومی اسمبلی کا الیکشن بھی لڑ چکا ہے ۔ نیب کی اوگرا اسکینڈل میں پہلی انکوئری ہوئی تو’’ دو بڑے‘‘ قصوروار نکلے مگرپھر دوسری انکوائری ہوگئی اور یہی دونوں بے قصور ٹھہرے ۔ یہ کیوں ہوااور پھر یہ تاثر کیوں ہے کہ نیب (ن) لیگ کے حوالے سے بڑا فرینڈلی ہے ۔میرے اس سوال پر قمر زمان چوہدری ایک قہقہہ مار کر بولے ’’جب پہلی انکوائری ہوئی تو میں دو ماہ کی چھٹیوں پر تھا۔میں واپس آیا تو مجھے تحریری درخواست ملی کہ یہ انکوائری دفتر میں بیٹھ کر کی گئی ہے اور اس میں Site Inspectionسمیت بہت سارے حقائق نظرانداز ہوئے ہیں لہٰذا دوبارہ انکوائری کی جائے ۔میں نے اس درخواست پر دوبارہ انکوائری کرادی لیکن دونوں انکوائریاں ایک ہی افسر نے کیں ۔باقی بحیثیت چیئرمین نیب نہ تومیں کبھی کسی انکوائری میںشامل ہوتا ہوں اور نہ کسی انکوائری پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتا ہوں۔اور دوسری بات کہ نیب (ن) لیگ سے فرینڈلی ہے تو یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ نواز شریف خاندان کے کیسز جب احتساب عدالتوں سے خارج ہوئے تو یہ نیب ہی تھاکہ جس نے ان فیصلوں کیخلاف اپیل کی لیکن اب تو ایسا لگتاہے کہ ایک دن مجھ پر یہ الزام بھی لگے گا کہ این آر او بھی میری وجہ سے ہی ہوا ہے ۔ اس رات قمرزمان چوہدری ہر موضوع پر بولے اور کھل کر بولے ۔انہوں نے جہاں ہمیشہ انہیں پسند کرنے اور برے وقتوں میں ساتھ دینے والے جج صاحب کی آخری دنوں میں ناراضی کی وجہ بتائی وہاںاپنی 6 مہینے تک ہوئی انکوائری کا قصہ بھی سنایا ۔ انہوں نے یہ بھی برملا کہا کہ’’ پرویز مشرف نے بہت مایوس کیا اور زرداری صاحب نے ملک کو ریورس گئیر میں ڈال دیا ۔چیئرمین نیب نے یہ بھی بتایا کہ آج تک نواز شریف نے نہ کسی کی سفارش کی اور نہ کبھی ناجائز دبائو ڈالا‘‘۔ اس رات قمر زمان چوہدری نے پیسے اور کرسی کی خاطر اپنے چند بھگوانوں کا وہ کچھا چٹھابھی کھولا کہ جسے سنتے ہوئے بھی شرم آرہی تھی ۔
اُس رات قمرزمان چوہدری کے گھر سے نکلتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ جہاں ہمیں یہ حق حاصل کہ نیب اگر ڈنڈی مارے یا کہیں’’ ہتھ ہولا ‘‘رکھے تو اس ’’ملی بھگت ‘‘ کو ہم بے نقاب کریں ،وہاں ہمارا یہ فرض بھی کہ ہم نیب کو اتنا کریڈٹ تو دیں کہ 175کرپٹ ممالک میں 126 ویں نمبر والے پاکستان میںگزشتہ دو سال سے 74فیصد کیس نمٹا کرنہ صرف 30ارب کی ریکور ی ہوئی بلکہ 2014کا ’’پلڈاٹ سروے‘‘ بتائے کہ حکومتی اداروں سے 26 فیصد عوام مطمئن جبکہ نیب پر اعتماد42 فیصد لوگوں کا اور یہ سب کچھ ان حالا ت میںکہ چیئرمین نیب ’’ 16ویںبین الااقوامی کانفرنس برائے انسداد کرپشن ‘‘ میں شرکت کیلئے ملائیشیاجاتے ہیں مگر یہاں مشہور یہ کر دیا جاتا ہے کہ وہ احتساب کے خوف سے باہر چلے گئے۔
واپس جاتے ہوئے مجھے یہ خیال بھی آ رہا تھا کہ یا تو ہم سب ہی صحافی ہو گئے مطلب جس کی جب بھی نظر پڑی کسی بری چیز پر ہی پڑی یا پھرہم سب وہ مکھیاں کہ جوپورا جسم چھوڑ کر زخم پر ہی بیٹھیں کیونکہ کتنی عجیب بات ہے کہ اگر نیب کسی کو پکڑ لے تو شور مچے ، کسی کو نہ پکڑے تو واویلا ، کسی سے کچھ نکلوایا اگلوا نہ سکے تو پروپیگنڈہ اورتو اور اگرنیب کسی ـــ’’بڑے پیٹ‘‘ کو چیر کر کچھ نکالنے میں کامیاب ہو جائے تو بھی یہ شکایت کہ ’’ لوجی چند کروڑ لے کر کلین چٹ دے دی گئی ‘‘۔ یقین جانئے مجھے تواب اپنا حال دیکھ کر اکثر وہ خاوند یاد آجاتا ہے کہ جس نے ایک دن بیوی کو انڈا بناکر لانے کو کہا ،جب بیگم انڈا لے کر آئی تو خوب ڈانٹ ڈپٹ کے بعدخاوند نے کہا ’’ میں آملیٹ کھانا چاہتا تھا اور تم فرائی انڈا لے آئی ہو ‘‘۔ تھوڑی دیر بعدبیگم آملیٹ لے آئی توانتہائی غصے میں خاوند بولا’ ’ جب میں آملیٹ کھانا چاہتا تھا ، تم فرائی لے آئیں اور جب میں نے فرائی انڈے کا موڈ بنایا تو تم آملیٹ اٹھا لائی ہو ، پتا نہیں کب سدھروگی ۔ پھر آدھے گھنٹے بعدجب ڈری ہوئی بیگم فرائی اور آملیٹ دونوں طرح کے انڈے بنا کر حاضر ہوئی تو لمحہ بھر کیلئے انڈوں کو دیکھنے کے بعد خاوند چیخا ’’ پاگل عورت جس انڈے کو فرائی کرنا تھا اس کا تم نے آملیٹ بنا دیا اور جس کا آملیٹ بنانا تھا اسے تم نے فرائی کر دیا ، تمہاراواقعی کچھ نہیں ہو سکتا ‘‘۔