باریک واردات

October 12, 2015

پاکستان پیپلز پارٹی کے دور اقتدار کے آخری دنوں کی بات ہے، قانون و انصاف اور پارلیمانی و سیاسی امور کی وزارتوں پر فائز رہنے والے درویش صفت سینیٹر مولا بخش چانڈیو سے گپ شپ کے دوران استفسار کیا کہ کرپشن کے حوالے سے ان کی جماعت اتنی بدنام کیوں ہے تو انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ سائیں ہم جیسے سادہ لوگ ہیں ویسے ہی سادگی اور کھلے ڈلے انداز سے کرپشن کرتے ہیں اسلئے پکڑے جاتے ہیں لیکن دوسری طرف ایسی باریک واردات ڈالی جاتی ہے کہ صرف ایک ایس آر او جاری کر کے کروڑوں روپے ادھر ادھر کر لئے جاتے ہیں لیکن کسی کو کانوں کان خبر تک نہیں ہوتی۔ ادبی ذوق رکھنے کے باعث انہوں نے اپنا مدعا اس شعر کے ذریعے بیان کیا…دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ… تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو۔انتہائی سادگی سے بہت گہری بات کرنیوالے مولا بخش چانڈیو سے مہینوں پہلے ہونیوالا مکالمہ اسلئے یاد آگیا کہ آج کل ملکی معیشت کےبتدریج مستحکم ہونے کے چرچے ہر سو ہو رہے ہیں،وفاقی وزراء سے لیکر وزیر اعظم تک عالمی اداروں کے مشکل مشکل نام لیکر مجھ جیسے سادح لوح عوام کو باور کرا رہے ہیں کہ حکومتی کارکردگی کا اعتراف کرتے ہوئے پاکستان کی منفی ریٹنگ کو مثبت کر دیا گیا ہے،آئی ایم ایف بخوشی پاکستان کو قرضے کی نئی قسط جاری کررہا ہے،سرمایہ کار بھاگے چلے آ رہے ہیں،مہنگائی ملکی تاریخ کی کم ترین سطح پر آ گئی ہے اورزرمبادلہ کے ذخائر پہلی بار 20 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈیفالٹ تک پہنچنے والے پاکستان کو ڈھائی سال میں اپنے پائوں پر دوبارہ کھڑا کرنے کا کریڈٹ موجودہ حکومت کو ہی جاتا ہے لیکن اسی شبانہ روز محنت کے دوران کبھی کبھار ایسی باریک واردات ڈالی جاتی ہے کہ چانڈیو صاحب کے بقول کسی کو کانوں کان خبر تک نہیں ہوتی۔ایسی ہی ایک باریک واردات کے بارے میں قارئین کو آگاہ کرتے ہیں۔آپ میں سے اکثر لوگ اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی کے بارے میں جانتے ہوں گے کہ کوئی بھی ملک کسی ایسی مصنوعات کی درآمد کی حوصلہ شکنی کرتا ہے جس کی قیمت مقامی طور پرتیار کی جانے والی پروڈکٹ کے مقابلے میں کم ہو اوراس سے مقامی صنعت کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہو۔ ایسی صورت میں متعلقہ ملک درآمد کی جانے والی ایسی مصنوعات پر اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی عائد کر دیتا ہے تاکہ مقامی صنعت کو مسابقت کا ماحول فراہم کیا جا سکے۔ تجارت کے شعبے میں پاکستان کو آج تک خسارے کا سامنا ہے۔ گزشتہ مالی سال کے دوران پاکستان کا تجارتی خسارہ 22 ارب 95 کروڑ ڈالرز تھا۔ ملکی برآمدات میں تین اعشاریہ بیس فیصد تک کمی ریکارڈ کی گئی جس کی وجہ تحریک انصاف کے دھرنوں اور سیلاب جیسے عوامل کو قرار دے دیا گیا۔ اس وقت پاکستان کی اوسط ماہانہ برآمدات تقریبا 2ارب ڈالر کے لگ بھگ ہیں جبکہ درآمدات کا حجم اوسط ماہانہ 3 ارب 80 کروڑ ڈالر ہے۔اس صورتحال میں تجارتی خسارے کو کم کرنے کیلئے برآمدات میں اضافے اور درآمدات میں کمی کے اقدامات کئے جانے چاہئیں لیکن اس کے برعکس وفاقی وزارت تجارت کی طرف سے گزشتہ ماہ تیار کردہ جو اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹیز ایکٹ 2015 ءپارلیمنٹ سے منظورکرایا گیا اس سے ان خدشات کو تقویت ملتی ہے کہ مقامی صنعتوں کی بجائے کسی اور کے مفادات کا تحفظ یقینی بنایا گیا ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا کہ کوئی بھی ملک مقامی صنعت کے تحفظ کیلئے اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی کا سہارا لیتا ہے۔ پاکستان میں اس مقصد کیلئے نیشنل ٹیرف کمیشن قائم کیا گیا جس میں مقامی صنعتکار کسی درآمد کردہ مصنوعات کے بارے میں تحفظات کا اظہار کر سکتے ہیں۔ نیشنل ٹیرف کمیشن میں شکایت کے فیصلے کے خلاف اینٹی ڈمپنگ اپیلنٹ ٹریبونل میں اپیل کی جا سکتی ہے جس کے سربراہ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج ہوتے ہیں جبکہ دو ممبران ٹریبونل کا حصہ ہوتے ہیں۔ اس اپیلنٹ ٹریبونل کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ اب خوش لباس اور انگریزی بولنے کے شوقین وزیر تجارت نے پہلے سے نافذ العمل سال 2000 ءکے قانون میں اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹیز ایکٹ 2015 ءکے ذریعے ترمیم کرتے ہوئے اینٹی ڈمپنگ اپیلنٹ ٹریبونل کو بھی عدالتی فورم کی بجائے بیوروکریٹک پلیٹ فارم میں تبدیل کر دیا ہے۔ جو کہ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے جنرل ایگریمنٹ آن ٹیرفس ایند ٹریڈ(گیٹ) کی صریحا خلاف ورزی ہے۔ ڈبلیو ٹی او کے قانون گیٹ میں واضح طور پر درج ہے کہ ابتدائی شکایت کے خلاف جوڈیشل ریویو کا پلیٹ فارم ہونا چاہئے۔ نئے قانون میں اینٹی ڈمپنگ اپیلنٹ ٹریبونل کے سربراہ اور ممبران کی تقرری کی اہلیت کا معیار تبدیل کر دیا گیا ہے۔اب ریٹائرڈ ججز کی بجائے کسی بھی کمرشل لاء کے ماہر کو تعینات کیا جا سکتا ہے۔ نیشنل ٹیرف کمیشن تکنیکی ماہرین پر مشتمل ہوتا ہے جس کے فیصلے کے خلاف عدالتی نظر ثانی کیلئے اپیلنٹ ٹریبونل میں ججز شامل تھے جنہیں اب نکالنے پر یہ فورم بھی بیوروکریٹک ہو جائے گا۔اسی طرح اینٹی ڈمپنگ اپیلنٹ ٹریبونل کے سربراہ اور ممبران کی مدت ملازمت کو تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کر دیا گیا ہے جبکہ اس میں مزید ایک سال کی توسیع کی گنجائش ہے۔ اتنے طویل عرصے تک ایک ہی شخص کی تعیناتی بھی کرپشن کی راہ ہموار کرنے میں معاون ثابت ہو گی۔ سونے پہ سہاگہ حکومت کی طرف سے نیشنل ٹیرف کمیشن کے موجودہ ارکان کو ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے آگاہ کیا گیا کہ وہ اپنے کنٹریکٹ کے اختتام تک کام جاری رکھیں گے لیکن دوسری طرف اینٹی ڈمپنگ اپیلنٹ ٹریبونل کے سربراہ اور ممبران کو کہا گیا ہے کہ ان پر نئے ایکٹ کا فوری اطلاق ہو گا اس لئے وہ صرف نئی تعیناتی ہونے تک ہی دفتر جا سکتے ہیں۔ اسی نئے ایکٹ کے تحت اپیل کے نظام کو اس حد تک وسیع کر دیا گیا ہے کہ نیشنل ٹیرف کمیشن کے فیصلے کی بجائے درج کرائی جانے والی ابتدائی شکایت اور ابتدائی تحقیق کیخلاف بھی اپیل دائر کی جاسکے گی۔ نیشنل ٹیرف کمیشن کی طرف سے ابتدائی جرمانے سے لے کرحتمی فیصلے کیخلاف بھی اپیل دائر ہو سکے گی جبکہ اینٹی ڈمپنگ اپیلنٹ ٹریبونل کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اختیار تو موجود ہے ہی۔ اس طرح اپیلوں کے چکر میں مدعی خوار ہوتا رہے گا اور درآمد کرنے والا مصنوعات فروخت کر کے مال کما کر چلتا بنے گا اور ملکی تجارتی خسارہ کم ہونے کی بجائے بڑھتا رہیگا۔ حکومت جس کیلئے ملکی مفادات اور قومی خزانے کا تحفظ اولین ترجیح ہونی چاہئے اس نے اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹیز ایکٹ 2015 ءکی صورت میں باریک واردات کے ذریعے کیا ان کا تحفظ کیا ہے جو بجلی بحران اور کاروباری لاگت میں اضافے کے باعث اپنی صنعتیں ہمسایہ ممالک میں منتقل کر چکے یا ان کو مزید مال بنانے میں سہولت فراہم کی جو بیرون ممالک سے سستا مال ڈمپ کر کے مقامی صنعت کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں یا پھر ان دوستوں کو منڈی فراہم کی جن کی سستی لیکن ناقص مصنوعات ایمپریس روڈ سے انار کلی بازار تک ہر جگہ نظر آتی ہیں ،فیصلہ قارئین خود کر لیں۔