اہرامِ خود فریبی

November 04, 2016

قاہرہ جانا ہوا، تو اہرامِ مصر دیکھنے کا اتفاق ہوا جن کی عظمت و ہیبت دیر تک ذہن پر چھائی رہی۔ اُن کی بنیادیں اِس قدر مضبوط ہیں کہ صدیوں سے لاکھوں ٹن بوجھ اُٹھائے ہوئے ہیں، مگر عمران خاں نے گزشتہ پانچ برسوں میں خودفریبی کا جو اہرام تعمیر کیا، وہ ایک رات دھڑام سے گر پڑا۔ لاہور میں مینارِ پاکستان کے وسیع و عریض گراؤنڈ میں اُن کی جماعت کا ایک عظیم الشان جلسہ 30؍اکتوبر 2011ء کی سہ پہر منعقد ہوا جس میں لوگ کشاں کشاں آئے تھے اور اُن کا جوش و خروش دیدنی تھا، یوں لگا جیسے ایک نیا عہد طلوع ہو رہا ہو۔ اگلے ماہ تحریکِ انصاف کا بہت بڑا جلسہ کراچی میں ہوا جس میں مخدوم جاوید ہاشمی نے اِس میں شمولیت کا اعلان کیا۔ ساتھ ہی اپنے نئے قائد کو خبردار بھی کر دیا کہ میں ایک باغی ہوں اور آپ کے غلط اقدامات کے خلاف بھی بغاوت کر سکتا ہوں۔ تین سال بعد چشمِ فلک نے یہ منظر دیکھا کہ عمران خاں اسلام آباد کا گھیراؤ کیے ہوئے تھے، وزیراعظم نوازشریف اپنی سرکاری رہائش گاہ میں تنہا رہ گئے تھے، کاروبارِ حکومت معطل تھا اور عدالتِ عظمیٰ کے فاضل جج صاحبان کا راستہ بھی غیر محفوظ ہو چکا تھا، تب جاوید ہاشمی نے کپتان کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا اور وہ راز فاش کر دیا کہ وہ منتخب حکومت کا تختہ اُلٹ دینا چاہتے ہیں۔
اِس اعلان سے عمران خاں کا دھرنا بلبلے کی طرح بیٹھ گیا جو آئین، قانون اور شرافت پر کاری ضرب لگا رہا تھا۔ انتخابات میں ایک منظم دھاندلی کی تحقیقات کے لیے جو عدالتی کمیشن قائم ہوا تھا، اِس نے فیصلہ سنایا کہ منظم دھاندلی کے ثبوت نہیں ملے۔ اِس عدالتی فیصلے نے خاں صاحب کی سیاسی حیثیت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا، لیکن اُن کی بے قراری اور بے تابی بدستور نئے نئے گل کھلاتی رہی۔ اِس دوران اپریل 2016ء میں پانامہ سکینڈل کا غلغلہ بلند ہوا اور ڈھائی سو افراد کے نام سامنے آئے جو آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں، اِن میں وزیراعظم کے دو بیٹوں اور ایک بیٹی کا ذکر بھی آیا۔ جناب نوازشریف نے فوری طور پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کر دیا اور پاکستان کے فاضل چیف جسٹس کو عدالتی کمیشن بنانے کی درخواست بھی کی۔ بدقسمتی سے اپوزیشن اور حکومت کے مابین ضوابط و قواعد پر اتفاق نہیں ہوا جس میں بعض نامور شخصیتوں نے منفی کردار ادا کیا اور چھ ماہ سے زائد ایک دوسرے پر الزام تراشیوں میں گزر گئے اور خاں صاحب کے سر میں اپنے بڑے پن اور دوسرے کے غلط ہونے کا سودا سما گیا۔ بدقسمتی سے بعض اینکر پرسن اُن کی قصیدہ گوئی میں لگے رہے اور اُنہیں مسیحا کے طور پر پیش کرتے رہے کہ اِس سے ریٹنگ میں اضافہ ہوتا تھا۔ اِسی دوران مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی بربریت کی مذمت کرنے اور سرفروش کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کے لیے پارلیمان کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس بلایا گیا، تو عمران خاں نے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا جس پر اِس پارٹی کے سنجیدہ لوگ ہکا بکا رہ گئے، مگر وہ اپنے کپتان سے کھلے بندوں اختلاف کی جرأت نہ کر سکے کیونکہ عملاً فیصلے کے تمام اختیارات چیئرمین کے پاس ہیں۔ خاں صاحب نے اِسے بھی اپنا ایک ’کارنامہ‘ سمجھا اور مزید فتوحات کے شوق میں وزیراعظم کی رہائش گاہ کے گھیراؤ کا مژدہ سنا دیا۔
اِس پروگرام پر تحریکِ انصاف کے ساتھ چلنے والی جماعتوں نے اختلاف کیا اور سب سے پہلے پاکستان کے بزرگ سیاست دان چوہدری شجاعت حسین کی طرف سے بیان آیا کہ ہم چاردیواری کے احترام پر یقین رکھتے ہیں۔ جب لے دے زیادہ ہوئی، توکپتان کو رائیونڈ جا کر وزیراعظم سے استعفیٰ لینے کے بجائے اڈا پلاٹ پر جلسۂ عام کرنے پر اکتفا کرنا پڑا۔ ایک ماہ کی تگ و دو کے بعد وہ تقریباً بیس پچیس ہزار آدمی لانے میں کامیاب رہے، لیکن زیادہ تر اخبارات اور ٹی وی چینلز نے جلسے کی اِس زاویے سے فوٹو گرافی کی کہ وہ لاکھوں نظر آنے لگے۔ اِس پر کپتان نے عالمِ سرشاری میں دعویٰ کیا کہ دس لاکھ لوگ آئے تھے۔ خودفریبی کا اہرام کسی مضبوط بنیاد کے بغیر اونچا ہوتا جا رہا تھا۔ اِسی رات اعلان ہوا کہ ہم دس لاکھ شہریوں کے ساتھ اسلام آباد جائیں گے، اِس کی تالا بندی کریں گے، حکومت کو کام نہیں کرنے دیں گے اور وزیراعظم کا استعفیٰ یا اُن کی تلاشی لے کر واپس آئیں گے۔
یہ وقت وہ تھا جب بھارت نے ایک طرف کشمیری بچوں، عورتوں کے پیلٹ گنوں سے جسم چھلنی اور بینائی ختم کرنے کا ہولناک سلسلہ شروع کر رکھا تھااور پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک کرنے کا دعویٰ بھی کر دیا تھا۔ یہ آئے روز سیزفائر کی خلاف ورزی تھی اور پاکستان کی طرف روزانہ چار پانچ شہری شہید اور اِتنی ہی تعداد میں زخمی کیے جارہے تھے۔ دوسری طرف کوئٹہ میں دہشت گردی کے الم ناک واقعات ایک چیلنج کی حیثیت اختیار کر گئے۔ وزیراعلیٰ پرویزخٹک اقتصادی راہداری پر شکوک و شبہات کاغبار اُٹھاتے رہے۔اربابِ بصیرت کی طرف سے بیان آنے لگے کہ اِن حالات میں کپتان کو اسلام آباد لاک کرنے کا پروگرام ختم کر کے قومی سلامتی کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ انہی دنوں سپریم کورٹ نے اِن آئینی درخواستوں کی سماعت کا فیصلہ کیا جو آف شور کمپنیوں کے بارے میں تحقیقات کرنے اور وزیراعظم کو اقتدار سے محروم کرنے کے لیے دائر کی گئی تھیں۔جب یکم نومبر کی تاریخ مقرر ہوئی، تو بیشتر سیاسی زعما نے کہا کہ اب اسلام آباد پر چڑھائی کا کوئی جواز نہیں، لیکن عمران خاں اپنی ضد پر قائم رہے اور سیاسی حرارت میں خوفناک حد تک اضافہ کرتے گئے۔ 28؍اکتوبر کی شام تحریکِ انصاف کے نوجوانوں نے دفعہ 144کے باجود جلسہ کرنا چاہا، تو آنسو گیس کے شیل استعمال ہوئے اور لاٹھی چارج بھی ہوتا رہا۔ پنجاب میں کوئی ایک ہزار کے لگ بھگ سرگرم کارکن گرفتار کر لیے گئے اور 31؍اکتوبر کی رات خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ جو ایک لشکر کے ساتھ اسلام آباد کی تالابندی کیلئے نکلے تھے، انہیں برہان انٹرچینج پر سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ صبح ہونے تک عمران خاں ذہنی طور پر سرنگوں ہو چکے تھے۔ پنجاب کے عوام نے کپتان کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا تھا اور تحریکِ انصاف کے کارکن سخت مایوس تھے کہ پولیس اُن پر تشدد کر رہی تھی اور پارٹی کے رہنما بنی گالہ میں آرام فرما رہے تھے۔ اِس نازک مرحلے پر عدالتِ عظمیٰ نے تیسرے امپائر کا کردار ادا کیا اور حکومت اور اپوزیشن کو اِس امر پر متفق کر لیا کہ پانامہ لیکس کی تحقیقات کیلئے عدالتی کمیشن بنے گا اور اِس کی رپورٹ جملہ فریقوں کے لیے عدالتی فیصلے کی حیثیت سے تسلیم کی جائے گی۔ عمران خاں نے اِسے اپنی ’فتح‘ قرار دیا۔
خطرہ بظاہر ٹل گیا ہے، مگر خودفریبی اور اَنا پرستی کے کوہِ گراں اِدھر بھی اور اُدھر بھی نظر آ رہے ہیں۔ ابھی ڈان میں شائع ہونے والی خبر کا قضیہ ختم نہیں ہوا۔ جناب پرویز رشید نے وزارت چھن جانے پر ایک باوقار طرزِ عمل کا مظاہرہ کیا ہے اور اِن کی وزارت سے علیحدگی کا جو سبب ہمارے وزیر داخلہ نے بیان کیا ہے، اِس میں کوئی وزن ہی نہیں۔ دراصل یہ وقت سول ملٹری تعلقات پر غیر معمولی توجہ دینے اور زمینی حقائق کا صحیح اِدراک حاصل کرنے کا ہے۔ آنے والے دو مہینوں میں دو چیفس ریٹائر ہو رہے ہیں جن کی ریٹائرمنٹ سے پہلے اور ریٹائرمنٹ کے بعد منظر نامہ تبدیل ہو سکتا ہے۔ حکومت کو بھی خودفریبی کے سحر سے باہر آنا اور مشاورت اور مواخذے کا دائرہ وسیع کرنا ہو گا۔ اِس موقع پر ایک عظیم استاد کا غیرمعمولی شعر ذہن پر القا ہوا ہے
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اِس کار گہِ شیشہ گری کا


.