کالا دھن اور نئی اسکیم

November 10, 2016

غیرمنقولہ جائیداد کا کاروبار پاکستان میں عشروں سے سرفہرست ہے تاہم چند ماہ سے اس شعبے میں پہلے جیسی سرگرمی نظر نہیں آرہی تھی ۔ اس صورت حال کے ازالے کے لیے گزشتہ روز قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی ذیلی کمیٹی نے پراپرٹی کے کاروبار کے نمائندوں کے تعاون سے رئیل اسٹیٹ میں کالا دھن سفید کرنے کیلئے ایک بار ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کی تجویز کو اتفاق رائے سے حتمی شکل دے دی ہے اور پارلیمنٹ کے آئندہ اجلاس میں اس بارے میں قانون سازی متوقع ہے۔ اسکیم کے تحت پراپرٹی کی حقیقی قیمت پر تین فی صد ٹیکس دینے والے سے ذریعہ آمدنی نہیں پوچھا جائے گا۔ ٹیکس ایمنسٹی کی اس اسکیم کا پس منظر یہ ہے کہ پراپرٹی کے کاروبار میں ہونے والی بھاری ٹیکس چوری روکنے کے لیے تقریباً تین ماہ پہلے غیرمنقولہ جائیدادوں کی مارکیٹ ویلیو کا تعین ایف بی آر سے کرایا جانا قانوناً ضروری قرار دیا گیا تھا کیونکہ پراپرٹی کے کاروبار میں بالعموم کاغذات پر خریدی جانے والی جائیداد کی قیمت مارکیٹ کی اصل قیمت سے بہت کم ظاہر کی جاتی تھی ۔ اس کے نتیجے میں خریدارکو نہ صرف رقم کم ظاہر کیے جانے کی وجہ سے حقیقی ٹیکس سے بہت کم ادا کرنا پڑتا تھا بلکہ اس بارے میں بھی کوئی جوابدہی نہیں کرنی ہوتی تھی کہ اس کے پاس جائیداد کی اصل قیمت کی ادائیگی کے لیے بھاری رقم کہاں سے آئی ۔ اس سے ایک طرف قومی خزانے کو بھاری نقصان ہورہا تھا اور دوسری طرف جرائم کے پھلنے پھولنے کے مواقع بھی بآسانی دستیاب تھے۔تاہم اس قانون کے نفاذ کے بعد پراپرٹی کے کاروبار میں جو کمی واقع ہوئی وہ قومی معیشت کے لیے نقصان دہ تھی چنانچہ اس کا کوئی حل نکالنا ضروری تھا جو ایک بار ٹیکس ایمنسٹی دیے جانے کی صورت میں نکالا جانا تجویز کیا گیا ہے۔ لہٰذا اسے ایک ناگزیر اقدام کے طور پر گوارا کیا جاسکتا ہے مگر اس بات کو یقینی بنایا جانا چاہئے کہ آئندہ ایسے کسی فیصلے کی ضرورت پیش نہ آئے اور غیرمنقولہ جائیداد کا کاروبار اصل قیمت اور پورے ٹیکس کی ادائیگی کے ساتھ ہی کیا جائے۔

.